چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے پیکا ایکٹ کے غلط استعمال کی عادی ہو چکی ہے۔ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے مختلف ادوار میں مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام تک حقائق کی ترسیل کا سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے ہتھکنڈے جمہوری سوچ کی عکاسی نہیں کرتے، اسی لیے ایسے اقدامات زیادہ تر غیر جمہوری ادوار میں ہی ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی سے سول حکمران بھی اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے جس کی وجہ سے صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی صحافت کی آئین و قانون میں ضمانت موجود ہے اور یہ ضمانت کسی حکمران نے اپنی خوشی سے صحافیوں کو نہیں دی بلکہ صحافیوں نے یہ آزادی قربانیاں دے کر حاصل کی ہے۔ اس آزادی پر نہ تو کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی ایسا ہتھکنڈا برداشت کیا جا سکتا ہے جس کا مقصد عوام کو حقائق سے بے خبر رکھنا ہو۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک کر ایک اچھا حکم صادر کیا ہے، اب متعلقہ اداروں کو بھی آئین و قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔