نواز شریف اورجنرل کیانی کی ایک’’ہاں‘‘…(1).

صابر شاکر
۵۲ مئی کو ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا، اس روز وفاقی دارالحکومت کے سیاسی درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافے کا خدشہ تھا، جس کی وجہ سے پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز تھیں۔ جہاں وفاقی وزیرقانون و انصاف ڈاکٹر بابر اعوان این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کے مقدمے میں عدالت کے طلب کرنے پرپیش ہوئے۔
ایک روز قبل یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ وزیرقانون کے ساتھ مزید بیس وزرا ء بھی سپریم کورٹ جائیں گے، لیکن کمرہ عدالت میں پہنچنے والے وزرا کی تعداد تیرہ سے تجاوز نہ کرسکی۔ یہ ایک سوال تھا کہ بیس وزرا کا اعلان کیوں کیاگیا اور بالآخر تیرہ وزراء ہی سپریم کورٹ کیوں گئے؟۔ ایک واقف حال نے بتایا کہ ایوان صدر کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ وزراء کی حاضری کمرہ عدالت میں یقینی بنائی جائے تاکہ یہ تاثردیا جاسکے کہ پوری حکومت این آر او کے معاملے میں وزارت قانون کے موقف کی حامی ہے، لیکن بھاری بھرکم کابینہ میںسے صرف صدارتی کیمپ کے وزراء اور مشیرقمرزمان کائرہ، مخدوم امین فہیم، راجہ پروزیز اشرف، نذر محمد گوندل، پیرآفتاب شاہ جیلانی، نوید قمر، ارباب عالمگیر خان،اعجاز جاکھرانی، آیت اللہ درانی، تسنیم قریشی، صمصام علی بخاری، سردارآصف احمد علی، سردار لطیف کھوسہ ،رانا محمد فاروق اور سینٹ میں قائد ایوان سینٹر نیر بخاری اپنے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری سے اظہار یکجہتی کے لیے کمرہ عدالت میں موجود رہے اور نشستوں پر بیٹھ کر مقدمے کی کارروائی سنی۔
وفاقی وزیرقانون بابر اعوان جو قحط الرجال کے اس دور میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، پیشے کے اعتبار سے وہ ایک صحافی بھی رہ چکے ہیں۔ درس قرآن اور دینی موضوعات پر لیکچر دینے کا شغف بھی رکھتے ہیں۔ سیاست دان بھی ہیں اور بطور وکیل صورت حال کی مناسبت سے مقدمات کو سیاسی اور قانونی ہر اعتبار سے لڑنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم ان میں موجود ہے۔ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کیخلاف مقدمات میںان کے وکیل کی حیثیت سے کمرہ عدالت میں ہی اپنے مخالفین کے منہ کالے کروانے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل کرچکے ہیں،شائد اسی وجہ سے جب انہیں موجودہ مقدمہ میں سپریم کورٹ میں طلب کیاگیا تو عام تاثر یہی تھا کہ اس روز’’کچھ نہ کچھ ‘‘ہو کر رہے گا۔ لیکن اس مرتبہ ان کا سامنا کسی عام عدالت یادنیا دار ججوں کے بجائے انتہائی قدآور، سنجیدہ، کم گو ، دیانت دار اور اچھی شہرت کے حامل جسٹس ناصر الملک،جسٹس راجہ محمد فیاض،جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سائرعلی اور جسٹس طارق پرویز سے تھا جو اپنے فیصلوں کی وجہ سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ اسی لیے بابر اعوان بھی پٹڑی سے نہیں اترے اورفاضل بنچ کے سامنے تقریبا ۰۸ منٹ سے زائد تک دلائل دیتے رہے۔
معزز جج صاحبان نے اطمینان سے انہیں سنا اوربلا تعطل بولنے کا پورا موقع دیا۔ عدالت کی ساری کارروائی انتہائی خوشگوارماحول میں ہوئی ، کوئی بدمزگی ہوئی نہ کوئی اونچی آواز آئی۔ کسی کا تمسخر اڑایا گیا اور نہ ہی کسی کی عزت نفس کو مجروح کیاگیا، کمرہ عدالت میں موجود میڈیا کے ارکان بڑی خبر کا انتظا ر کرتے رہے، لیکن ایساکچھ نہ ہوسکا۔
صدر کے استثنیٰ پر وزیرقانون نے براہ راست کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی فاضل جج صاحبان نے اس پراستفسار کیا ۔ ستر منٹ کے مسلسل دلائل سننے کے بعد عدالت نے مختصر استفسار کیا کہ عدالت کوصرف یہ بتایا جائے کہ سوئس بنکوں میں پڑے ساٹھ ملین ڈالرز لانے کے لیے حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ اور حکومت این آر او کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ اب تک فیصلے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیاگیا؟۔’’کچھ بھی نہ کہا او ر کہہ بھی گئے ‘‘ کے مصداق فاضل جج صاحبان نے یہ سب کچھ انتہائی دھیمے انداز میں پوچھا اور ساتھ ہی وزیرقانون سے کہا کہ وہ ایک مختصر مگر جامع تحریری بیان داخل کریں تاکہ اس مقدمے کو نمٹایا جا سکے۔ تمام وزراء خوش تھے کہ کمرہ عدالت میں ان کے ساتھی بابر اعوان کے ساتھ ، رحمان ملک ، لطیف کھوسہ اور احمدریاض شیخ کی طرح کوئی ’’انہونی‘‘ نہیں ہوئی۔ اور جو خدشات اور وسوسے ان کے ذہنوں میں تھے ، یا ان پرمسلط کیے گئے تھے، ایسا کچھ نہیں ہوا اور بقول وزیرخوراک وزراعت نذر محمد گوندل کے’’ مقدمہ کی سماعت ایک معمول کی کارروائی تھی اور دو ہفتے بعد بھی کوئی قیامت نہیں آ جائے گی‘‘۔ لیکن بابر اعوان جو ججوں کے لب ولہجہ اور قانونی موشگافیوں سے بخوبی واقف ہیں، بہت اچھی طرح جان چکے تھے کہ سماعت کا اختتام ان کے حق میں نہیں ہوگا۔سماعت کے بعد کم وبیش تمام وزرا ء نے اس پرخوشی کے شادیانے بجائے کہ بعض عاقبت نا اندیش حکومت اور عدلیہ کے درمیان جس ٹکراؤ اور تصادم کا عندیہ دے رہے تھے،انہیں آج منہ کی کھانی پڑی ہے لیکن اگر سپریم کورٹ کی آخری تین منٹ کی کارروائی کا جائزہ لیں تو فاضل ججوںنے واضح پیغام دیا ہے کہ لچھے دار گفتگو سے معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کے لیے حکومت کو اپنا طرز عمل بدلتے ہوئے عدالت کے فیصلوں پراس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنا ہوگا۔
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل دینے سے میخانہ نہ بدلے گا
پاکستان کے حکمران خواہ وہ فوجی ہوں یا سول اس اعتبار سے ہمیشہ ہی بد نصیب ٹھہرے کہ انہوں نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا اور ہر حکمران اقتدار کے خمار میں ایسا مست ہو اکہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی’’ ہوس‘‘ اور سیاسی مخالفین کو ہرصورت میں نیچا دکھانے کے لیے اس قدر حد سے گذر گیا کہ اپنے سمیت پورے نظام ہی کو ڈبوتا رہا۔زیادہ دور نہیں جاتے، ذوالفقار علی بھٹو کو ہی لے لیں جو اپنے دور کے مقبول ترین اور ناقابل شکست راہنما تھے ، جن کے کارناموں میں 1973ء کا متفقہ دستور اور ایٹمی پروگرام کی بنیادرکھنا شامل ہے،لیکن 1977 ء کے عام انتخابات میں کم ازکم دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی دھن نے انہیں تخت سے اتار کرتختہ دار تک پہنچادیا۔ جنرل ضیاء الحق اپنے ہی نامزد کردہ بے ضرر وزیراعظم محمد خان جونیجو کے وجود کو برداشت کرلیتے تو شائد ان کو بھی زندگی کی کچھ ساعتیں اور مل جاتیں۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو صدر اسحاق خان کو، صدر فاروق لغاری بے نظیر بھٹو کو ، اور نواز شریف پرویز مشرف کو کچھ دیر اور برداشت کرلیتے تو وہ کچھ نہ ہوتا جو کچھ سیاست کے اس طالب علم نے ملک میں ہوتے دیکھا۔
پرویز مشرف اقتدارکو طول دینے کی خاطر اپنے اعتماد کے سیاسی رفقا کو چھوڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ قومی مفاہمتی آرڈیننس کا سہارا نہ لیتے اور پھرپرویز مشرف اور محترمہ این آر او کے تحت شراکت اقتدار کے طے شدہ فارمولے کے مطابق ’’رولز آف گیم‘‘ کی پاسداری کرتے تو آج خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے پرویز مشرف صدر اور شہید محترمہ ملک کی وزیراعظم ہوتیں۔ اوراگر صدر آصف علی زرداری نواز شریف کے ساتھ بھوربن معاہدے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس قول کی پاسداری کرتے جس میں انہوںنے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ’’اپنا چیف جسٹس ‘‘کہتے ہوئے ان کی بحالی اور ان کی رہائش گاہ پر قومی پرچم لہرانے کا اعلان کیا تھاتو شائد صدر زرداری آج این آر او کی دلدل میں یوں نہ دھنستے چلے جاتے۔یہ طرزعمل صرف سیاست دانوں اور فوجی حکمرانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ عدلیہ میں بھی یہی سوچ کئی بار ابھری لیکن جلد ہی دم توڑ گئی، سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی صدر فاروق لغاری کے ساتھ مل کر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مہم جوئی اور حال ہی میں آزاد جموں و کشمیر میں چیف جسٹس کے دعوے دار دو جج صاحبان کی غیرمعمولی رخصتی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔…………(جاری ہے)
جیسا کہ عرض کیا کہ ہمارے حکمران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، یہ عمل اب بھی جاری ہے، اور ہماری اطلاعات کے مطابق ایوان صدر اورسپریم کورٹ میں محاذ آرائی کے خاتمے کے لیے ابھی تک کوئی مثبت اقدام نہیں اٹھایا جارہابلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے پتھر کودوسرے کے منہ پر مارنے کے لیے تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ایک مخالف کو زیر کرنے کے لیے دوسرے قدرے کم نقصاندہ مخالف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے منصوبوں پراعلیٰ دماغ سوچ بچار میں مصروف ہیں۔خود تو ’’ڈوبیں گے‘‘ صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق صورت حال بارہ اکتوبر1999 ء سے پہلے سے ہرگز زیادہ مختلف نہیں۔’’ گرگ بارہ دیدہ‘‘ کی طرح تمام بڑے کھلاڑی اپنے مخالف کی معمولی سی چوک اور اس کے غیر معمولی وار کو ناکام بنانے کے لیے ’’تاک‘‘ میں بیٹھے ہیں۔ ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ ایک بڑے گھرمیںچند اعلیٰ سیاسی دماغ عدلیہ پر ایک دفعہ پھر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اور موجودہ عدلیہ سے نمٹنے کے لیے مختلف آپشنز پرکام جاری ہے ، ایک آپشن یہ ہے کہ کیوں نہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی معیاد پانچ سال کردی جائے اور یوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 28 جون کو ریٹائرہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی، اس آپشن کے حامیوں کی دلیل ہے کہ اگر صدر ،وزیراعظم، آرمی چیف، چیف الیکشن کمشنر، اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان حتیٰ کہ ہر آئینی عہدے کی ایک میعاد مقرر ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس صاحبان کے عہدے کی میعاد مقرر کیوں نہیں کی جاسکتی؟۔ اسی مقصد کی خاطرگذشتہ دنوں آرمی چیف کے عہدے کے میعاد تین سال سے بڑھا کرپانچ سال کرنے کا ’’شوشہ‘‘ چھوڑا گیا ،تاکہ آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی میعاد بھی پانچ سال کردی جائے ، اور اگر اس پرجی ایچ کیوآمادہ ہوجاتا ہے تو پھر’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ میں ایوان صدر اپنے ایک حریف پراحسان کرتے ہوئے دوسرے حریف سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ اور اگر ایوان صدر اور جی ایچ کیو کے درمیان یہ ڈیل ہوجاتی ہے تو پھر شائد مسلم لیگ نون بھی اس بارے میں کوئی مزاحمت نہ کرے۔ جبکہ دوسرے آپشن کے طور پر چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس بھی دائر کیا جاسکتا ہے اورحکومتی دعوے کے مطابق ان کے پاس ٹھوس مواد موجود ہے۔ لیکن یہ ریفرنس دائر کرنے سے قبل ایوان صدر اپنے حلیف اور حریف سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایوان صدر کی حکمت عملی ہوگی کہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اٹھارہویں ترمیم کے معاملے میں حالات ایسے ہوجائیں کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ مد مقابل ہوں اور اس تاثر کو تقویت دی جائے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی بالادستی پرحملہ آور ہورہی ہے۔ یہ وہ باریک نکتہ ہے جس کی زد میں موجودہ عدلیہ بآسانی آسکتی ہے اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف ،چوہدری اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور دیگر سیاسی راہنما برملا کہہ چکے ہیں کہ ایسی صورت میں وہ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ایسے حالات پیدا کرنے سے پہلے ہی دواعلیٰ عدالتی اتھارٹیز کے خلاف ریفرنس کی تیاری کا عمل جاری ہے، جسے بوقت ضرورت استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے صدارتی کیمپ ایک قابل اعتماد اور دبنگ چیف جسٹس کی تلاش میں ہے، جوبعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل میں معاملے کو نہ صرف منطقی انجام تک پہنچا سکے بلکہ اعلیٰ عدلیہ کو بھی اپنے ساتھ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ ایوان صدر کی کوشش ہے کہ اگر این آر او کے بجائے اٹھارہویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت پرسپریم کورٹ پہلے فیصلہ دے اور این آر او کا معاملہ یونہی معلق رہے تو ایوان صدر دیگر قوتوں سے بہترسے بہتر انداز میں معاملات طے کرنے کی کوشش میں ہوگا۔ ایوان صدر عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤکی اس کیفیت کو رواںسال اگست اور ستمبر تک لے کر جانا چاہتا ہے، یہ وہ وقت ہوگا کہ جب نئے آرمی چیف کے تقرر یاموجودہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں اضافہ کرنے کے بارے میںحتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن ایوان صدر کی اس سارے گیم پلان کی کامیابی کا دارومدار نواز شریف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک ’’ہاں‘‘ پرمنحصر ہے۔ ماضی میںایوان صدر ان دونوں کے ساتھ کئی بار ’’ہاتھ‘‘ کر چکا ہے۔ اس لڑائی میں کون کس کو نیچا دکھانے میں پہل کرتا ہے، لیکن اس مڈبھیڑ کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوںگے۔ بہتر ہوگا کہ ایوان صدر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی دو ہفتوں کی مہلت میں تصادم بڑھانے کے بجائے قومی مفاہمت کے حقیقی مفہوم پرعمل کرے، ورنہ
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرف محرمانہ

ای پیپر دی نیشن