اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ریڈیو مانیٹرنگ+ ریڈیو نیوز) 18ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کیخلاف حکومت نے جواب عدالت عظمیٰ میں داخل کیا ہے جس میں لارجر بنچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔ جواب حکومتی وکیل ڈاکٹر باسط نے داخل کیا ہے جس میں مﺅقف اختیار کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس چونکہ جوڈیشل کمشن سربراہ ہیں اور جوڈیشل کمشن کیخلاف ہی درخواستوں کی سماعت ہو رہی ہے لہٰذا انہیں خود کو اس بنچ سے الگ کر لینا چاہئے، درخواستوں کی سماعت کیلئے بنچ میں جسٹس سید زاہد حسین کو شامل کیا جائے اور کیس کی سماعت فل کورٹ کرے۔ یہ جواب ندیم امجد ایڈووکیٹ کی درخواست کیخلاف جمع کرایا گیا ہے۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری کا اختیار کسی ایک شخص کو حاصل نہیں ہوناچاہئے۔ جسٹس زاہد حسین بنچ میں شامل نہیں اس لئے فل کورٹ نہیں ہے۔ یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر واپس کر دیا جانا چاہئے۔ دریں اثناءوفاق نے 18ویں ترمیم کے خلاف وطن پارٹی کی درخواست پر ایک اور تحریری جواب سپریم کورٹ میں داخل کر دیا۔ جس میں مﺅقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اس لئے وطن پارٹی کی درخواست قابل سماعت نہیں، عدالت اس کو بھاری جرمانے کے ساتھ مسترد کر دے۔ حکومت کی جانب سے راجہ ابراہیم ستی نے جواب میں مﺅقف اختیار کیا ہے کہ درخواست گزار ایک وکیل ہے لیکن متاثرہ فریق نہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آئینی ترامیم پاکستانی عوام کے خلاف ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے کوئی آئینی دستاویزات بھی اپنی درخواست کے ساتھ لف نہیں کیں۔
18ویں ترمیم کیس
18ویں ترمیم کیس