لاہور (خصوصی رپورٹر + خصوصی نامہ نگار) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ 11 مئی 1998ءکو بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے کی اطلاع قزاقستان کے دارالحکومت الماتا میں صبح سویرے ملی، اور میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم بھی جوابی ایٹمی دھماکے کریں گے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا 7 دھماکوں سے جواب نہ دیتے تو واجپائی بس پر لاہور نہ آتے۔ مشاہد حسین میرے ساتھ تھے میں نے جب انہیں بتایا تو انہوں نے میرے فیصلے کی تائید کی، 17 دن کا انتظار تیاریوں کے لئے کیا گیا، اس میں جنرل (ر) ذوالفقار علی خان تمام 17 دن ساتھ تھے۔ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ جنہیں جاتا ہے ان میں مجید نظامی بھی شامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے ”یوم تکبیر“ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کی صدارت ممتاز صحافی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی نے کی۔ مہمان خاص مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف تھے۔ اس موقع پر جنرل (ر) ذوالفقار علی خان، ڈاکٹر رفیق احمد، پرویز ملک ایم این اے اور شاہد رشید نے بھی اظہار خیال کیا۔ تقریب میں سینیٹر سردار ذوالفقار علی کھوسہ، ارکان قومی اسمبلی احسن اقبال، میاں مرغوب احمد، حاجی ریاض ملک، صوبائی وزیر چودھری عبدالغفور، ارکان پنجاب اسمبلی خواجہ عمران نذیر، اعجاز احمد خان، سکینہ شاہین، چودھری شہباز، جمشید خان ترین، رفاقت ریاض، بیگم مجیدہ وائیں، خواجہ محمود احمد، سید نصیب اللہ گردیزی، وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاونین صغریٰ عائشہ، نسرین نواز، فرزانہ بٹ، رخسانہ کوکب، راحت افزا کے علاوہ توصیف شاہ، چودھری باقر حسین، نذیر سواتی، میاں طارق، عثمان تنویر بٹ، لطیف اللہ پیرزادہ، ڈاکٹر فرزانہ نذیر، ڈاکٹر نبیلہ طارق، اختر بادشاہ، رانا مبشر اقبال، پیر اعجاز ہاشمی سمیت تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹوں، مسلم لیگی کارکنوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمایاں افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تلاوت کلام پاک قاری امجد علی اور نعت رسول مقبولﷺ پیش کرنے کی سعادت الحاج اختر حسین قریشی نے حاصل کی۔ تقریب سے پہلے قومی ترانہ بجایا گیا، میاں نوازشریف نے کہا کہ مشاہد حسین کو میں نے کہا کہ ہم نے بھی بھارت کو منہ توڑ جواب دینا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چوائس نہیں میں آپ کے فیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔ 17 دن کی تیاریوں میں 35 ہیلی کاپٹر، درجنوں جہاز اور 400 گاڑیوں نے دن رات کام کیا۔ ایٹمی قوت کی بدولت پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا، پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔ آج کوئی دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا ہے۔ آج مہنگائی، بےروزگاری اور غربت میں بہت اضافہ ہو چکا، لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ آج حکومت تعمیراتی کاموں کی بجائے مفادات پرستی میں ڈوبی ہوئی اور کرپشن میں لت پت ہے اگر یہ قوم کسی اصولوں پر کھڑی ہو جائے تو ملک میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ آج قوم منزل کی تلاش میں بھٹک رہی ہے، قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے پروانوں کو اپنی منزل کا پتہ ہے لیکن مجموعی طور پر قوم کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک بہت سے لوگ بھٹکے ہوئے ہیں ایسے لوگ حکومت میں بھی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ان لوگوں کو راہ راست پر لانا ہو گا۔ نوازشریف نے کہا کہ جب بھارت نے ایٹمی د ھماکے کئے تو مجھے کہا گیا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہ کئے تو میرا دھماکہ کر دیا جائے گا مگر میں نے ایٹمی دھماکے کر دئیے، قوم نے میرا دھماکہ نہ کیا مگر مشرف نے میری حکومت کا دھماکہ ضرور کر دیا، آج میری حکومت کا دھماکہ کرنے والے کہاں ہیں؟ ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔ اس کے بعد متعدد مواقع پر بھارت ہمارے خلاف جارحیت کرنا چاہتا تھا لیکن ہماری ایٹمی قوت کی بدولت وہ جرا¿ت نہ کر سکا۔ آج پاکستان ایٹمی قوت ہے، ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ایٹمی قوت کی بدولت پاکستان کی عزت، وقار میں اضافہ ہوا، اس کا دفاع مضبوط ترین ہو گیا۔ جب ہم نے بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کئے، اس وقت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اختر مینگل تھے۔ آج ہم انہیں ہی غدار کہتے ہیں، ان پر کتنی تکالیف ڈھائی جا رہی ہیں۔ ان کی پاکستانیت کسی سے کم نہیں ہے، بنگلہ دیش بنگالیوں نے نہیں بنایا بلکہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ 65ءمیں ایم ایم عالم نے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ ہم اپنے ساتھ زیادتیوں کے خود ذمہ دار ہیں۔ ہم ساتویں بیڑے کا انتظار کرتے رہے لیکن کوئی ساتواں بیڑہ کسی کی مدد نہیں کرتا۔ آپ کو اپنے پا¶ں پر خود کھڑا ہونا چاہئے۔ پاکستان دنیا کی سات ایٹمی پاورز میں سے واحد ایٹمی ملک ہے جسے بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد ہم پر بہت سی پابندیاں لگیں لیکن ہم ان میں سے کامیابی کے ساتھ باہر نکل آئے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا۔ ہمارا منصوبہ تھا ایک ایسا پاکستان ہو جہاں مہنگائی، بےروزگاری اور غربت کا خاتمہ ہو اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو لیکن پاکستان کا مفاد نہ رکھنے والی سوچ نے ہماری حکومت کو ختم کر دیا اور یہ سب کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر کیا گیا۔ مہنگائی، بےروزگاری اور غربت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، آج پاکستان کی خودمختاری کا حال دیکھ کر شرم آتی ہے۔ کیا حکومت کے اندر موجود کسی شخص میں ادراک یا سوجھ بوجھ ہے؟ کیا حکومت میں موجود کسی شخص کو اندازہ ہے کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، وہاں سے لاپتہ ہونے والے افراد کہاں ہیں؟ وہاں سے افراد کو کیوں اور کس آئین کے تحت غائب کیا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ اس نے ڈالروں کے عوض اپنے افراد غیروں کے حوالے کر دئیے۔ کیا لاپتہ افراد بھی امریکہ کے حوالے ہو چکے ہیں۔ آج لوگ جلسوں میں باتیں کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے غیرت مند لوگ ہیں لیکن غیرت عمل سے آتی ہے، ہم نے اتنی بڑی پیشکش ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کرنے کا غیرت مندانہ فیصلہ کیا۔ 14 سال پہلے اتنی مہنگائی، بےروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی نہیں تھی۔ حکومت نے اپنے 4 سال میں جتناقرضہ لیا ہے وہ گذشتہ 60 سالوں میں لئے گئے قرضوں کے برابر ہے۔ نوے دنوں میں حالات ٹھیک کرنے کی باتیں کرنیوالے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ یہ بڑامشکل کام ہے اور اس کیلئے قوم کو بھی صبر کرنا ہو گا۔ گذشتہ 4 سال میں غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے۔ان حالات کے پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ موجودہ حکمران بھی ذمہ دار ہیں۔ اس وقت دس دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور آج بیس بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ جہاں وزیراعظم چاہتے ہیں وہاں گیس سپلائی کی جاتی ہے۔ یہاں نہ بجلی ہے اور نہ پانی۔ ایسے حالات میں ہم ترقی کیسے کر سکتے ہیں۔ حکومت میں موجود کسی شخص کو کراچی میں جاری خونریزی نظر نہیں آرہی‘ بلوچستان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ آج حکومت تعمیراتی کاموں کی بجائے مفادات پرستی اور کرپشن میں سر سے لے کر پاﺅں تک ڈوبی ہے۔ سپریم کورٹ کرپشن میں ملوث وزرا کی انکوائریاں کروا رہی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حاجیوں کا مال کھایا جارہا ہے۔ ان حالات پر جب سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے تو وہ اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اگر یہی حالات رہے تو ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ مجھے اپنی آنیوالی نسلوں کی بہت فکر ہے۔ آج ہماری خودمختاری کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، خود مختاری کی دھجیاں اڑانے والوں کو ہی سلام بھی کیا جارہا ہے۔ آصف علی زرداری شکاگو کیا لینے گئے تھے؟ ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ پاکستانیوں کو شہید کردیتے ہیں لیکن ان کیخلاف کارروائی نہیں کی جاتی بلکہ انہیں مکھن سے بال کی طرح نکال دیا جاتا ہے۔ یہ ریاست کی خودمختاری کی حفاطت کی جا رہی ہے؟ ایبٹ آباد کا واقعہ رونما ہوئے ایک سال گزر چکا ہے لیکن ابھی تک اس واقعہ کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہئے۔ ایبٹ آباد میں چار ہیلی کاپٹر ہماری حدودکی خلاف وزری کرتے رہے اور ہماری خودمختاری کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن آصف زرداری اس کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ ان لوگوں نے ہمارے ملک کا کیا حشر کر دیا ہے۔ ان حالات میں خاموش رہنا جرم ہو گا۔ موجودہ حکومت میری وجہ سے نہیں عوام کے ووٹوں سے قائم ہوئی ہے۔ پرویز مشرف نے ہمیں الیکشن میں ہرانے کی پوری کوشش کی‘ مجھے اور شہباز شریف کو الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا، الیکشن میں دھاندلی بھی کی گئی۔ قومی اسمبلی کی تیس نشستیں ایسی تھیں جو ہم بہت کم مارجن سے ہارے‘ یہ سیٹیں اگر ہم جیت جاتے تو ہماری نشستوں کی تعداد 92 کی جگہ 122 ہوتی اور ہماری حکومت قائم ہو جاتی لیکن ہم نے واویلا نہیں کیا بلکہ صبرکیا اور دھاندلی کا شورنہیں مچایا۔ ہم میثاق جمہوریت میں لکھی گئی شقوں کے تحت آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم نے یہ محسوس کیا کہ یہ پاکستان کو تباہ کر دیں گے تو ہم میدان عمل میں نکل آئے۔ موجودہ حالات میں عوام کو سوچنا چاہئے۔ قوم فیصلہ کرے کہ کس کو آگے آنا چاہئے۔ میرا عزم جواں ہے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میں مجید نظامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا۔میاں محمد نوازشریف نے اپنی تقریر کا اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے سے کیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ یوم تکبیر قوم کے لئے یوم تشکر بھی ہے۔ نوازشریف پیچھے نہیں ہٹے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ثمر مبارک مند اور ان کے پانچ ہزار ساتھی سائنسدانوں نے وہ کر دکھایا جو قوم کی تمنا تھی۔ بھارت سے دوستی کی باتیں کرنے والے بھارت کے جارحانہ عزائم کو یاد رکھیں۔ جنرل (ر ) ذوالفقار علی خان نے کہا کہ 11 مئی 98ءکو بھارتی ایٹمی دھماکے تک پاکستان کا ایٹمی پروگرام پوشیدہ تھا ، ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی رویہ پاکستان کے ساتھ بہت تحکمانہ تھا۔ روایتی فوج میں ہمارے لئے بھارت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا بھارتی دھماکے ہمارے لئے نعمت ثابت ہوئے اور اس کے بعد ہم بھی ایٹمی طاقت بن گئے۔ نوازشریف نے نازک حالات میں ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا، ایٹمی د ھماکوں کے بعد بھارت نے پاکستان کو معاملات بیٹھ کر سلجھانے کی پیشکش کی ایٹمی طاقت بننے میں اہم کردار ڈاکٹر عبدالقدیر کا ہے ہمیں ہیروز کو یاد رکھنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر اور رکن قومی اسمبلی پرویز ملک نے کہا کہ 28 مئی پاکستانی قوم کے لئے انتہائی اہم دن ہے، اس روز پاکستانی قوم یوم تکبیر منا کر ایٹمی طاقت بننے پر خوشی کا اظہار کرتی ہے، میاں نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ ملکی مسائل کا حل اب بھی نوازشریف کے پاس موجود ہے۔ ہم نے زرداری کو نکال باہر کرنا ہے ہمارا نعرہ یہی ہے۔ سٹیج سیکرٹری شاہد رشید نے کہا کہ 98ءمیں ایٹمی دھماکوں کے بعد قوم نہ لوڈشیڈنگ سے دوچار تھی نہ امن و امان کے مسائل تھے اور نہ اتنی مہنگائی اور بے روزگاری تھی۔ ہمیں افواج پر فخر ہے لیکن جرنیل شاہی کے خلاف ہیں، نواز شریف کو فوجی بغاوت کے اقتدار سے محروم کرنے کے خلاف نوائے وقت اور اس کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے سب سے زیادہ آواز بلند کی۔
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار) یوم تکبیر کے حوالے سے تقریب میں مجید نظامی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہم 23 مارچ کو یوم پاکستان اور 28 مئی کو یوم تکبیر مناتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یوم تکبیر اہم ترین دن ہے اس دن میاں محمد نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو اس کا دماغ خراب ہو گیا اس نے پاکستان کو للکارنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ان کے ساتھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر سائنسدانوں نے دن رات کام کیا۔ 11 مئی 1998ءکو بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد پاکستانی حکومت پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لئے بہت دباﺅ تھا۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بنے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں نواز شریف کو پانچ مرتبہ ٹیلی فون کیا‘ اس کے علاوہ کئی سو ملین ڈالر رشوت کی بھی پیشکش کی گئی ان مشکل حالات میں میاں نواز شریف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ایٹمی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورے کر رہے تھے۔ اسی تناظر میں ایڈیٹرز کی میٹنگ ہوئی اور ان سے اس بارے میں رائے مانگی گئی میں نے محسوس کیا کہ میاں نوازشریف تذبذب کا شکار ہیں۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ میاں صاحب‘ دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی‘ میں آپ کا دھماکہ کر دوں گا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دئیے تو میاں نواز شریف نے مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا کہ نظامی صاحب‘ مبارک ہو میں نے دھماکہ کر دیا ہے۔ میاں محمد نوازشریف نے جو ایوارڈ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دیا وہی ایوارڈ مجھے بھی دیا ‘میں نے ان سے پوچھاکہ مجھے یہ ایوارڈ کیوں دے رہے ہیں؟وہ کہنے لگے کہ ایٹم بم بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اہم کردار ادا کیا‘ ایٹمی دھماکہ میں نے کیا لیکن ایٹمی دھماکہ کرایا آپ نے ہے۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مجھے ٹیلی فون آیا کہ میں لاہور آرہا ہوں‘ مجھے رائے ونڈ لے چلیں۔ میں نے میاں محمد شریف (مرحوم) سے ملنا ہے۔ میں ٹیلی فون کر کے وہاں گیا تو میاں نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف بھی وہیں موجود تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہاروں سے لاد دیاگیا۔ وہاں طے ہوا کہ کاروباری بات اسلام آباد میں ہو گی۔ چنانچہ اسلام آباد میں ان کی ملاقات ہوئی اور معاملات طے پاگئے۔ انہوں نے کہا کہ سب افراد پاکستان کو قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و خیالات کے عین مطابق جدید اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنانے کیلئے اپناکردار ادا کریں۔ قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت سمیت کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں۔ امن کی آشا کو بھول جائیے اورقرآنی زبان میں اپنے گھوڑے یعنی ایٹم بم اور میزائل تیار رکھیں اور کشمیر کو آزاد کروائیں۔ ہمارے ایٹم بم اور میزائل بھارت سے کہیں بہتر ہیں۔