جمعیت علمائے اسلام گذشتہ 5 برس پیپلز پارٹی کی چھتری تلے حکومت کے تمام مزے اور فائدے اٹھاتی رہی۔ خود مولانا فضل الرحمان صاحب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے خوب غیر ملکی دورے کئے اور کشمیر کمیٹی کے فوائد اور برکات سمیٹیں۔ 5برسوں میں صوبہ بلوچستان اور سرحدمیں اسکے تمام ارکان وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ جی بھر کر دین اور دنیا کمائی۔ عوام کےلئے کیا کیا اس کا نتیجہ جے یو آئی اور پیپلزپارٹی جو خود بقول مولانا فضل الرحمان صاحب اور جناب آصف علی زرداری فطری حلیف ہیں کے سامنے آچکا ہے۔ لگتا ہے سیاست کے میدان میں آنے کے بعد مذہبی جماعتوں کے منہ کو جو چسکا لگ گیا ہے اس کے ماتحت اب ان جماعتوں کی سیاست بھی عوام کی خدمت نفاذ اسلام اور عالمگیر غلبہ اسلام کی بجائے صرف اور صرف اہم حکومتی وزارتوں پر قبضے اور ان سے حاصل شدہ کروڑوں روپوں کے ترقیاتی و غیر ترقیاتی فنڈز کے حصول اور من پسند افراد کی ملازمتوں میں بھرتی اور نوکریوں میں کوٹے کی خرید و فروخت اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔چلئے وفاق میں تو پیپلزپارٹی کی سیکولر مزاج حکومت تھی۔ بلوچستان اور سرحد میں جے یو آئی کی راہ میں کون سی رکاوٹ تھی جس نے اسے عوام کی مخلوق خدا کی خدمت سے روکے رکھا۔ کتنے عوامی فلاحی منصوبے صحت اور تعلیم کے مراکز بنے اور کتنے غریبوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ جے یو آئی پیپلزپارٹی اے این پی (ق) لیگ اور ایم کیو ایم یہ پانچ جماعتی اتحاد 5برسوں میں مل جل کر ”انجمن ستائش باہمی“ بنا کر حکومت کرتے رہے اور ”لٹو تے پھٹو“ کے قاعدے پر عمل کیا۔ جے یو آئی کے سربراہ نے الیکشن 2013ءمیں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد اب اس کے کاندھے پر سوار ہو کر حکومت میں شامل ہو کر اپنا حصہ وصول کرنے کا پروگرام بنایا تو ابتداءمیں میاں نوازشریف نے اور شہبازشریف نے برحق موقف اپناتے ہوئے نہایت خوبصورتی سے مولانا صاحب اور ان کی سیاست سے جان چھڑائی اور معذرت کی۔ مگر مولانا صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں انہوں نے ہمیشہ کی طرح ”چور بھی خوش اور کوتوال بھی خوش“ کی سیاست اپنائی اور آنے والی مسلم لیگ کی حکومت کو ”طالبان“ کے ”بھوت“ سے کچھ ایسا ڈرایا کہ میاں برادران بھی اس”بھوت“ سے بچنے کیلئے مولانا صاحب کو اپنا”پیر تسمہ پا“ بنانے پر مجبور نظر آ رہے ہیں اور لگتا ہے مولانا انہیں طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان ”ثالثی“ بنا کر مذاکرات اور امن کی راہ کا خواب دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود ان کے اپنے 5 سالہ گذشتہ دور حکومت میں بلوچستان اور سرحد سمیت پورے ملک میں طالبان نے دہشت گردی کا بازار گرم رکھا۔ تب انہوں نے بے گناہ عوام اور سکیورٹی فورسز کی جانوں اور قومی املاک کے تحفظ کیلئے کوئی کردار ادا کیوں نہیں کیا۔ یہ سچ تو نہیں کہ طالبان کا یہ کردار بھی انہی جماعتوں کا بنایا ہوا ہے۔اب بھی اگر مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان اور انکی جماعت جے یو آئی کی مدد سے طالبان کو رام کر سکیں گے تو یہ انکی بہت بڑی بھول ہے۔ طالبان تو مغربی سیاست کو نظام جمہوریت کو کفر قرار دیتے ہیں ۔ جے یو آئی اور مولانا فضل الرحمن جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، جے یو پی اور دیگر مذہبی جماعتیں تو اس کا فرانہ نظام کا حصہ ہیں اور جمہوریت کے کافرانہ نظام کے تحت ہونے والے الیکشنوں میں حصہ لے کر ان میں کامیابی حاصل کر کے اس نظام کے تحت قائم حکومتوں کا حصہ بن کر اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہتے ہیں۔ اسلئے بہتر یہی ہے کہ میاں برادران اور مسلم لیگ ایسی موقع پرست اور حکومتی مزے کی عادی جماعتوں سے پرہیز ہی کریں تو بہتر ہے۔ یہ وہ ”پیر تسمہ پا“ ہیں جو ایک مرتبہ کسی کی گردن پہ سوار ہو جائیں تو پھر ان سے گردن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ مولانا صاحب کو 5برس اب اپوزیشن میں بیٹھنے کے فوائد اور برکات سے بھی مستفید ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اطمینان و سکون کے ساتھ ایک منتخب حکومت کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ حکومت میں شامل کر کے مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی کشمیر کمیٹی اور چند وزارتوں کی رشوت دے کر ایسے لوگوں اور جماعتوں کی سرپرستی نہ کریں جن کا کام ہی انہی چند سیٹیوں کو کیش کروا کر ہر حکومت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اب اگر شریف بردران کو موقع ملا ہے تو وہ سیاست کو ان خون چوسنے والی جونکوں سے پاک ہی رکھیں تو یہ پاکستانی عوام اور سیاست پر ان کا احسان ہو گا۔ اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی بھی جو ”بلیک میلنگ“ کی سیاست کو اپنا فرض سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔