نعیم قاسم
انیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط میں یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہونا شروع ہو گیا جس کی وجہ سے لوگوں کی طلب کی نسبت اشیائے ضروریات کی رسد بڑھنا شروع ہو گئی۔ کلاسیکی ماہر معاشیات جے بی صے کے نظرئیے کے مطابق رسد اپنی طلب خود پیدا کرتی ہے (Suply creates its own demand) کا نظریہ دم توڑتے دکھائی دینے لگا کیونکہ تھوڑی لیبر فورس اور مشینوں کے باہمی امتزاج سے زائد پیداوار (overprodution) وجود میں آنا شروع ہو گئی مگر اس زائد پیداوار کی نسبت سے نہ تو برسر روزگار مزدوروں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا اور نہ ہی بے روزگار افراد کے پاس کوئی پس انداز کی ہوئی کمائی تھی جس کے ذریعے وہ صنعتی کارخانوں کی تیار کردہ اشیاءکو خریدنا شروع کر دیتے چنانچہ جب زرعی اور صنعتی اشیاءکی رسد طلب کی نسبت بہت زیادہ بڑھنا شروع ہو گی تو ان کی قیمتوں میں کمی شروع ہو گی جسے معاشیات کی اصطلاح میں تفریط زر deflation یا کساد بازاری کہتے ہیں۔ 1929-30 میں دنیا کو شدید کساد بازاری great defression کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ منڈیاں اشیائے صارفین سے بھری پڑی تھیں اور ان کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر آ گئیں تھیں مگر کم قیمتوں کی وجہ سے کارخانے داروں کے مصارف پیدائش بھی پورے نہیں ہو رہے تھے تو انہیں مجبوراً کارخانے فیکٹریاں بند کرنے پڑ گئے جس سے دنیا میں بے روزگاری کا شدید طوفان آ گیا۔ امریکہ اور یورپ میں کروڑوں افراد بے روزگار ہو گئے اب کیسے ممکن تھا کہ یہ بے روزگار افراد منڈی میں پہلے سے موجود اشیاءضرورت کا سٹاک خرید پاتے کیونکہ ان کے پاس تو کوئی کمائی نہیں تھی۔ اس موقع پر مشہور ماہر معاشیات جے ایم کینز نے اپنی کتاب روزگار، سود اور زر کا عمومی نظریہ 1931ءمیں تحریر کی، اور حکومت کو قائل کیا کہ کساد بازاری پر قابو پانے کے لئے حکومت نوٹ چھاپ کر مصنوعی قوت خرید پیدا کرے تاکہ زائد پیداواری کو لوگ خرید سکیں چنانچہ امریکہ اور یورپ میں جے ایم کینز کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے حکومتوں نے زر کی رسد میں اضافہ کیا جس پر اشیاءضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور جب آجرین حضرات کو قیمتوں میں اضافے سے منافع حاصل کرنے کی امید دکھائی دی تو انہوں نے دوبارہ کارخانے، فیکٹریاں چالو کر دیں جس سے لوگوں کو دوبارہ روزگار ملنا شروع ہو گیا اور اس طرح کساد بازاری میں اشیاءو خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے جسے معاشیات کی اصطلاح میں افراط زر inflation کہتے ہیں دنیا میں معاشی بحران پر قابو پا لیا گیا۔ لہٰذا کساد بازاری میں افراط زر کی مدد سے آمدنی اور روزگار کی سطح بلند کرنا بری بات نہیں سمجھی جاتی ۔ اس سے معیشت کا بہاﺅ چلتا رہتا ہے یعنی کارخانے فیکٹریاں اشیائے ضروریات پیدا کرتی رہتی ہیں اور عاملین پیدائش اپنی خدمات کے عوض معاوضے حاصل کرکے ان کارخانوں، فیکٹریوں میں تیار شدہ مصنوعات خریدتے رہتے ہیں۔ تاہم 1930ءکے عالمی معاشی بحران کی وجہ سے ہی دنیا میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی چونکہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے امریکہ، روس، جرمنی اور جاپان کو اپنی زائد پیداوار بیجنے کے لئے غیر صنعتی ممالک کی منڈیاں درکار تھیں چنانچہ دنیا میں امپیریل ازم کے ظہور نے دنیا کو 1937ءمیں دوسری عالمی جنگ میں جھونک دیا ۔بالآخر جاپان پر امریکہ کے ایٹمی حملوں سے اختتام پذیر ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ میں اشیاءو خدمات کی شدید قلت میں یورپی حکومتوں نے دھڑا دھڑ کرنسی نوٹ چھاپنے شروع کر دئیے جس سے ان ممالک کی معیشتیں تیز تر افراط زر کا شکار ہو گئیں۔ لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر دکانوں پر جاتے اور چند اشیا جیبوں میں ڈال کر واپس آتے۔ جرمنی اور پولینڈ میں جو چیزیں چند مارکس یا چند pengos میں ملتی تھیں ج کروڑوں مارکس اور اربوں پینگوز میں ملنے لگیں۔ بظاہر افراط زر کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اگر معیشت میں کساد بازاری ہو تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو شدید ذہنی دباﺅ میں دماغی سکون کی ادویات لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایک شخص صحت مند ہو کر عام حالات میں بھی دھڑا دھڑ سکون آور ادویات کا استعمال جاری رکھے گا تو کیسے ممکن ہے کہ صحت مند رہے گا؟ کسی بھی معیشت کے لئے اشیاءو خدمات کی قیمتوں میں سالانہ 3 سے 5 فیصد اضافہ کاروباری سرگرمیوں کیلئے بہتر ہوتا ہے۔ اس سےروزگار کی سطح بڑھتی ہے اگر کسی معیشت میں روزگار کی سطح افراط زر کی سطح سے زیادہ ہو تو معیشت میں معاشی ترقی کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں پانچ چھ افراد رہتے ہیں ان کے اخراجات زندگی میں ماہانہ چند ہزار کا اضافہ ہو جاتا ہے مگر اس گھر کے دو افراد کو بھی روزگار مل جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس خاندان کے گھریلو بجٹ میں پانچ ہزار ماہانہ کا اضافہ ہوا ہو مگر کاروباری سرگرمیوں کے زیادہ فروغ پانے سے اس گھرانے کے دو افراد کو دس دس ہزار ماہانہ کی نوکریاں مل گئی ہوں تو جہاں ایک طرف منافع کے لالچ میں کاروباری افراد نے جب اشیاءو خدمات کی قیمتیں بڑھائیں اور زائد منافع کیلئے دوبارہ سرمایہ کاروبار میں لگایا تو نئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر جب سرمایہ دار بہت زیادہ منافع کے حصول کے لئے اشیاءخدمات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہی جاتے ہیں تو افراط زر ایک استحصالی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ یہی وہ لوٹ کھسوٹ تھی جس کی وجہ سے دنیا میں مارکسزم کے نظرئیے کو فروغ حاصل ہو اکہ، اشیاءو خدمات کی زائد قدر surplus value تو سرمایہ اور مزدور کی محنت کے اشتراک سے پیدا ہوتی ہے مگر سارے کا سارا منافع سرمایہ دار کی جھولی میں آ گرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں امیر اور غریب کے درمیان معاشی تفاوت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ امیر دن بدن امیر ہوتے چلے جاتے ہیں اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس سرمایہ دارانہ معیشت میں بالعموم غریبوں کے حقوق کے چیمپئن بھی وہ کاروباری سیاستدان ہوتے ہیں جو سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور کالا دھن کی مدد سے جب چاہتے ہیں ۔اشیاءو خدمات کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور جب چاہیں رئیل اسٹیٹ اور سٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی سے غریب عوام کی محنت کا استحصال اور متوسط طبقے کی تھوڑی بہت بچتوں پر بھی ہاتھ صاف کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج افراط زر کا نام ایک معاشی گناہ economic sin کا نام اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں دوہرے ہندسے یعنی 10 فیصد سے زائد شرح اور افراط زر بلحاظ مصارف اور افراط زر بلحاظ طلب نے متعدد مرتبہ اس کی سنگینی میں بے تحاشا اضافہ کیا پیپلز پارٹی کے دور میں افراط زر کی شرح 25 فیصد تک جا پہنچی اور اس کے علاوہ چونکہ توانائی کے بحران کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ کار اپنا پیسہ رئیل اسٹیٹ گولڈ اور اشیاءکی ذخیرہ اندوزی میں انویسٹ کر دیتے ہیں لہٰذا ان غیر پیداواری دفینوں کی وجہ سے معیشت میں دولت کی گردش نہ ہونے سے لوگوں کو معمولی روزگار بھی نہیں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف حرام خور پاکستانیوں کے 200 بلین ڈالرز سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑے ہیں اور دوسری طرف 10 کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں شدید ترین افراط زر کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں۔ iزر کا بے تحاشہ پھیلاﺅ ii حکومت کے اندرونی اور بیرونی ممالک سے قرضے iiiروزانہ 5 ارب روپے سے زیادہ کرنسی نوٹوں کا اجرا ئiv موجودہ مالی سال میں تیرہ سو ارب روپے کی خسارے کی سرمایہ کاری vبالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار viڈیزل تیل کی قیمتوں میں اضافہ vii اشیائے ضروریات آٹا چینی دالوں کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ میں اضافہ viiiغیر ملکی ترسیلات اور کالا دھن کی وجہ سے دولت کا بے دریغ خرچ xiآبادی میں اضافہ xسامان تعیش کی بڑھتی ہوئی درآمد xi توانائی کا بحران xii تخفیف قدر زر xiii پیداوار میں کمی xiv سیاسی عدم استحکام xv امن و امان اور دہشت گردی xvi زراعت اور صنعت کی پسماندگی xvii بیڈ گورننس اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے اداروں کی ناکامی xviii کرپشن xix سٹیٹ بنک کا حکومت پر غیر موثر کنٹرول xx حکومت کے شاہانہ غیر پیداواری اخراجات۔
ان تمام عوامل کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارے FADکے مطابق ایشیاءمیں خوراک کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ پاکستان میں دیکھنے میں آیا ہے جو 20 فیصد ہے۔ جبکہ ایشیا کے بیشتر ممالک میں یہ اضافہ سنگل ڈیجٹ تک ہی محدود رہا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان میں افراط زر کی شرح میں کمی لانے کے لئے موثر مالیاتی اور زرعی اقدامات پر زور دیا ہے۔ موجود مالی سال 2013-14 کا اختتام ہو رہا ہے مگر پچھلے سالوں کی نسبت ٹماٹروں کی قیمت 216.49 فیصد، آلوﺅں کی قیمت 116.90 فیصد، پیاز کی قیمتوں میں 72.83 فیصد، گندم کی قیمتوں میں 27.35 فیصد اور آٹے کی قیمتوں میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس حکومت اور سٹیٹ بنک کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ وہ موثر مالیاتی اور زرعی اقدامات کے ذریعے عوام کو ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاءارزاں نرخوں پر فراہم کرے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ حکمران اشیاءکی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں حالانکہ آئین زندگی کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ جب ملک میں غلے کی کمی ہے تو برآمد کیوں کیا جاتا ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ غربت سے تنگ خاتون نے اپنے 3بچے نہر میں پھینک دئیے جبکہ حکومت کے محکمہ خوراک کے گوداموں میں چوہے کھا رہے ہیں اگر حکومت عوام کو بنیادی حقوق نہ دے رہی ہو تو یہ مذاق کے مترادف ہے۔ اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ہمارے ملک میں زرعی شعبہ اس قدر خوراک پیدا کرتا ہے کہ فوڈ سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر حکومتی اہلکاروں، ناجائز منافع خوروں، اسٹیٹ بنک کی غیر موثر زرعی پالیسیوں اور حکومتوں کے بجٹ کے خسارہ پورے کرنے کے لئے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے افراط زر شدید ترین ہو کر عوام کو بھوک اور افلاس کا شکار کر دیتی ہے۔