احسن صدیق
بجلی کا یہ بحران کوئی دو چار روز میں پیدا نہیں ہوا بلکہ برسوں قبل ہی اس کے شواہد ملنے شروع ہوگئے تھے کہ مستقبل میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج سال ہا سال پورے ملک کو بھگتنا پڑیں گے۔ تونائی کی اِس قلت کی وجہ سے صنعتی شعبے کو کس قدر نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صرف ٹیکسٹائل کے شعبے کی پیداوار اندازاً20%کم ہوئی، جو ملکی برآمدات کا ساٹھ فیصد سے زائد بنتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹھوکر لگنے کے بعد سنبھلنے کی کوشش کی جاتی لیکن آئندہ کے لیے صورتحال بہتر بنانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملکی صنعت اس کی پیداوار پہلے سے ہی بے شمار مشکلات کی شکار ہے اب اس کے انتہائی منفی اثرات مجموعی ملکی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ ا±ن شعبوں کی حالت دن بدن قابلِ رحم ہوتی چلی جارہی ہے جن پر ہماری برآمدات کا بیشتر انحصار ہے۔ پلاسٹک انڈسٹری کا شمار ملک کی اہم صنعتوں میں ہوتا ہے کیونکہ نہ صرف لاکھوں افرادکا روزگار اس صنعت کے ساتھ وابستہ ہے بلکہ یہ صنعت حکومت کو اربوں روپے محاصل بھی دے رہی ہے۔ روزانہ گھنٹوں تک ہونے والی لوڈ شیڈنگ نے پلاسٹک انڈسٹری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ تسلسل سے یہ ہورہا ہے کہ عین اس وقت بجلی غائب ہو جاتی ہے جب پلاسٹک کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے مولڈنگ مشینوں میں مصالحہ ڈالاجاتا ہے ۔مشینیں بند ہوتے ہی مولڈنگ مشینوں میں ڈالا گیا تمام خام مال ضائع ہوجاتا ہے۔ باقی کی صنعتیں بھی کچھ اِسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ملک میں میسر تمام تر وسائل اور نعمتوں کے باوجود بجلی کا بحران پیدا ہونے کی وجوہات میں سرِفہرست پالیسی میکرز کی روایتی سستی و نااہلی ہے ۔ جبکہ دیگر وجوہات میں بجلی پیدا کرنے کے لیے روایتی طریقوں پر انحصار کرنا ،توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب کوئی توجہ نہ دینا،بجلی کے لائن لاسز، بجلی چوری اور خاص کر فاٹا و سندھ کے بہت سے طاقتور لوگوں کی جانب سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگیاں شامل ہیں۔
زمین پر حیات کے آغاز سے لے کر آج تک سب جانداروں کے لیے پانی ایک لازمی جزو رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر بقاءممکن نہیں۔ پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ دریافت ہونے کے بعدبہت سے ممالک نے پانی کی اہمیت اور مستقبل کی ضروریات کا قبل از وقت ادراک کرتے ہوئے بڑے آبی ذخائر میںاِسے ذخیرہ کرنا شروع کردیا جس سے انہیں دوہرے نہیں بلکہ تہرے فوائد حاصل ہوئے۔ اوّل ذخیرہ شدہ پانی سے سستی اور وافر توانائی حاصل ہونے لگی، دوسرا زرعی شعبے کوتمام موسموں میں پانی مسلسل ملنے لگا اور تیسرا آبادی کو سیلاب اورآفات سے بچانا ممکن ہو سکا۔جن ممالک نے مستقبل کی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی اقدامات نہیں کیے وہ پانی کی قلت کا شکار ہوگئے جس کا خمیازہ آج انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ہمارے ہاں کالاباغ ڈیم کی تعمیر طویل عرصہ سے التواپذیر چلی آرہی ہے جس کی بنیادی وجہ بعض سیاسی پارٹیوں کے کی مخالفت ہے۔ یہ لوگ بھارت کی جانب سے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہتے جبکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان ہوتے ہی مخالفت میں شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں نے اپنے علاقے کے سیدھے سادھے عوام کو بھی اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ ہمارے ہاں منگلا اور تربیلا ڈیم کی صورت میں جو آبی ذخائر موجود ہیں ا±ن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 26فیصد تک کم ہوچکی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈیم مٹی اور گار سے بھر رہے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم 2030ءتک جبکہ منگلا ڈیم 2050ءتک مٹی اور گارسے بھر جائیں گے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر سال 2012ءتک ملک میں کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہ کیا گیا تو صنعتی و زرعی شعبے اور عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیمز کی تعمیر فوری طور پر شروع کی جائے۔ اگر آئندہ پانچ برسوں کے دوران ہم تین بڑے ڈیم تعمیر کرلیں تو اِن سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے جس سے ملک میں جاری بجلی کا بحران یکسر ختم ہوجائے گا۔بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں لائن لاسز، سسٹم لاسز اور بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی چوری جیسے مسائل پر کبھی قابو نہیں پاسکا۔ ان مسائل کی وجہ سے ایک تو بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا دوسرا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا خسارہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے ۔ ہمارے حکامِ بالا میں سہل پسندی اس قدر رچ بس چکی ہے کہ وہ مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔بجائے اِس کے لائن لاسز، سسٹم لاسز اور بجلی کی چوری پر قابو پانے کے لیے کوئی اقدامات کیے جاتے، زبانی بیانات داغے جاتے ہیں۔ خسارہ پورا کرنے کے لیے لوگوں کا خون نچوڑنے کا سلسلہ صورتحال کو مزید سنگین کررہا ہے ،بجلی کی چوری کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے اور ایک بات تو طے ہے کہ فیکٹریوں اور ملوں میں بجلی کی چوری واپڈا اہلکاروں یا میٹر ریڈرز کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ۔ اِس کے علاوہ آج کل گلی محلوں میں نائٹ کرکٹ کی نئی روش چل نکلی ہے۔ چھٹی سے ایک روزقبل لاہور کے تقریباً تمام علاقوں میں ہیوی سرچ لائٹیں لگاکر کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ یہ سرچ لائٹیں براہِ راست تاروں پر کنڈی ڈال کر یا تاریں میٹر میں گھساکر روشن کی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ معلوم ہوتا ہے لیکن قطرہ قطرہ کرکے دریا بنتا ہے لہذا حکامِ بالا کو ان مسائل کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے بڑے مگر مچھوں اور گلی محلوں میں سے نائٹ کرکٹ میچ کروانے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہیئیں۔
جو ممالک ترقی کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ نئی سے نئی جدتیں تلاش کرتے ہی رہتے ہیں۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اب توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے پاس کئی ایسی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں جنہیں توانائی پیدا کرنے کے لیے متبادل ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ان معدنیات میں میں سرِفہرست کوئلہ ہے جس کے ایک اندازے کے مطابق ہمارے پاس تقریباً 184656ملین ٹن ذخائر موجود ہیں۔کوئلہ سستی توانائی کے حصول کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر بہت سے ممالک اپنی صنعتوں کو توانائی فراہم کرنے کی غرض سے کوئلے کے استعمال کو فروغ دے رہے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ سال 2020ءتک دنیا بھر میں کوئلے کا استعمال 7.6بلین ٹن تک پہنچ جائے گا۔ چین، امریکہ، برطانیہ اور بھارت سمیت دیگر کئی ممالک توانائی کے حصول کے لیے روائتی ذرائع پر انحصار کرنے کی بجائے کوئلے کے ذریعے سستی توانائی پیدا کررہے ہیں۔ جس سے ان کی صنعت اور عوام دونوں مستفید ہورہے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں کوئلے کی کُل کھپت کا 90%حصّہ اُن کا پاور سیکٹر استعمال کررہا ہے۔ صرف ایک سال کے دوران امریکہ کے الیکٹرک پاور سیکٹر نے 3691بلین کلوواٹ بجلی پیدا کی جس میں سے 53%حصّہ کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کا تھا۔ باقی توانائی کی پیداوار میں 22فیصد نیوکلیئر ، 14فیصد قدرتی گیس، 7فیصد ہائیڈروالیکٹرسٹی اور صرف تین فیصد تیل پر چلنے والے پلانٹس کا تھا۔ دیگر بہت سے ممالک بھی کوئلہ توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں بمشکل ایک فیصد برقی توانائی کوئلے کے ذریعے پیدا کی جارہی ہے جو افسوسناک بات ہے ۔ اگرچہ ہمارے پاس عمدہ معیار کے کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن پاکستان صرف پانچ ملین ٹن سالانہ کوئلہ پیدا کررہا ہے جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت میں کوئلے کی سالانہ پیداوار 363ملین ٹن ہے۔ چین بھی کوئلے کی ریکارڈ پیداوار حاصل کررہا ہے جو وہ نہ صرف خود استعمال کرتا ہے بلکہ ساﺅتھ کوریااور جاپان سمیت دیگر کئی ممالک کو برآمد بھی کررہا ہے۔ معاشی میدان میں چین اوربھارت کی تیز رفتار ترقی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی صنعتوں کو سہولت دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں اور سستی توانائی کا حصول بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کوئلے سے توانائی کا حصول تیل سے توانائی کے حصول کی نسبت کہیں سستا ہے کیونکہ دو ٹن کوئلہ ایک ٹن تیل کے برابر توانائی پیدا کرتا ہے جبکہ کوئلے کی قیمت تیل کی نسبت کئی گنا کم ہے۔ اس کے باوجود اِس جانب کوئی توجہ نہ دینا صرف اور صرف نااہلی کے زمرے میں آتا ہے۔ آج معاشی افق پر چین چھایا ہوا ہے جس کی تیز رفتار معاشی ترقی نے امریکہ جیسے ملک کو بھی پریشان کردیا ہے کیونکہ دیگر ممالک تو ایک طرف امریکہ کی مارکیٹیں بھی چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں۔ چین 2020ءتک کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے 600پلانٹ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جن میں سے ہر پلانٹ سے 300میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ بجلی چین کے صنعتی شعبے کو سستے داموں مہیا کی جائے گی۔ ہوا بھی توانائی حاصل کرنے کا ایک اہم اور سستا ترین ذریعہ ہے۔ ہزاروں سال قبل مصری ہوا کی توانائی کو دریائے نیل میں بادبانی جہاز چلانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ بعد میں لوگوں نے ہوا کی توانائی کا استعمال مکئی، گندم اور دیگر اجناس پیسنے کے لیے شروع کیا۔ 1920ءکی دہائی میں امریکہ نے اپنے دیہاتی علاقوں میں پن چکیوں کے ذریعے بجلی پیدا کرنی شروع کی جس پر اخراجات نہ ہونے کے برابر تھے۔ آج امریکہ اور ہالینڈ ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک ہیں۔ پاکستان جغرافیائی حوالے سے ایسے مقام پر واقع ہے جہاںسارا سال ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ہمارا ہزاروں میل لمبا ساحل ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے باآسانی استعمال ہوسکتا ہے جس سے ڈیڑھ سے دو ملین کلوواٹ بجلی سالانہ پیدا ہو سکتی ہے۔ جس سے 200سے 400گھروں کو باآسانی بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ شمسی توانائی بھی ایک متبادل ذریعے کے طور پر بخوبی استعمال ہوسکتی ہے۔ یہ امر ہمارے لیے باعث شرم ہے کہ وہ ممالک شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دے رہے ہیں جہاں موسم سرد ہونے کی وجہ سے سورج کی روشنی ایک محدود وقت کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں جہاں سورج سارا سال چمکتا رہتا ہے ، اس کے استعمال کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ وزارت بجلی و پانی کے حکام اگر بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لءواقعی خواہشمند ہیں تو سب سے پہلے واپڈا اور ڈسٹربیوٹری کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین سے سینکڑوں یونٹس بجلی مفت استعمال کرنے کی سہولت واپس لی جائے۔ بیشتر اہلکار ایک تو کرتے کچھ نہیں ہیں دوسرا بے شمار مراعات حاصل کرنے کے علاوہ مفت کی بجلی اندھا دھند استعمال کرکے عوام اور اپنے ادارے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
برسوں سے سر اٹھاتا ”پانی و بجلی کا بحران“
May 29, 2014