پہلے تو میری دلی دعا ہے کہ اللہ کریم مجید نظامی کی زندگی لمبی کرے۔ آمین۔ میرا سپاہ سالار میرے سر پر سایہ فگن ہے تو میں گرج برس سکتا ہوں اور تن تنہا اپنے سارے حریفوں کو چت کر سکتا ہوں۔
میری دوسری دعا یہ ہے کہ عمران خان نے لوگوں کو کینسر سے بچانے کے لئے ایک ہسپتال بنایا اور اسے ایک کارنامہ ظاہر کیا، حالانکہ یہ مانگے تانگے کا نتیجہ تھا۔ بہر حال اللہ اس کے صدقے عمران خاں کو امن کی آشا کے کینسر سے محفوظ رکھے۔آمین!
عمران خان سیاسی پرندہ نہیں ہے،اس کی سیاست، کرکٹ میں جوئے کے مترادف ہے، داﺅ چل گیا تو بلی کے بھاگوں چھینکاٹوٹ گیا۔پندرہ سال کی سیاست کے بعد اگراسے ایک صوبے کی حکومت مل ہی گئی ہے تو وہ اس صوبے کے معاملات کو سنبھالے، اس سے آگے بڑھے گا تو اپنی حد سے تجاوز کرے گا اور امپائر اسے لال جھنڈی دکھا دے گا اور یہ امپائر قوم ہے،اس کے ووٹر ہیں ۔
عمران خاں کے پاس قومی معاملات کو سدھارنے یا بگاڑنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ مگر جس وقت وزیر اعظم نواز شریف نئی دہلی میں نئے بھارتی وزیر اعظم کے سامنے بیٹھے چارج شیٹ سن رہے تھے، عین اسی وقت عمران خان نے اپنی توپوںکے دھانے کھول دیئے اور وہ بھی کس کے خلاف، پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے خلاف۔ ایک میڈیا گروپ نے پھر بھی مہربانی کی کہ صرف آئی ایس آئی کے سربراہ کو لتاڑا ، عمران خان ساری حدیں پھلانگ گئے اور جنرل راحیل شریف کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ شمالی وزیرستان میںآپریشن بند کریں ،ورنہ شمالی وزیرستان ملک سے علیحدہ ہو جائے گا۔وہ ایک قدم اور آگے بڑھے اور کریز سے باہر نکل کر کہنے لگے کہ سانحہ مشرقی پاکستان دوبارہ رونما ہو جائے گا۔انہوںنے یہ وارننگ دی کہ آپریشن نہ رکا تو جنرل راحیل سے خود ملوں گا۔ضد ی بچے کی ایک بار فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات ہو گئی ، اب وہ ہر روز کھیلن کو مانگے چاند۔
جنرل راحیل شریف گزشتہ روز وزیرستان میں تھے۔ عمران خاں نے ایک بار ڈرون حملوں کے خلاف جلوس کی آڑ میں اس علاقے میں گھسنے کی کوشش کی مگر وہ ٹانک سے آگے نہ جا سکا۔پاک فوج کا جوان فاٹا کے ایک ایک انچ پر موجود ہے اور جن دو علاقوںمیںنہیں ہے، وہاں قابض ہونے کے لئے حکومت کے اشارے کامنتظر ہے۔ آئی ا یس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ نے گزشتہ دسمبر میںلاہور کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کو صرف دو ہفتے درکار ہیں ، فاٹا کاباقی علاقہ بھی آئین پاکستان کی رٹ میں داخل کر دیا جائے گا۔ حکومت نے یہ حکم ابھی تک نہیں دیا۔ شاید اس لئے کہ ن لیگ، جماعت اسلامی،جے یو آئی اور تحریک انصاف اس آ پریشن کی مخالف ہیں۔ ا ن کی مخالفت کی وجہ کیا ہے، کیا صرف اس لئے مخالفت کی جا رہی ہے کہ طالبان ان کے بچے ہیں۔ ان کے لاڈلے ہیں۔
فوج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے نزدیک کچھ گڈ طالبان ہیں ، کچھ بیڈ طالبان ہیں لیکن جنرل عاصم باجوہ سے لاہور کے ایڈیٹروںنے پوچھا تھا کہ اگر آپریشن کا حکم ملا تو کیا صرف بیڈ طالبان کو نشانہ بنایا جائے گا، جنرل باجوہ اس سوال کے زہر کو بھانپ گئے، انہوںنے جواب دیا،کہ ہم ایک ٹائم فریم دیں گے کہ یہ علاقہ خالی کر دیا جائے، اس کے بعد جوبھی سامنے آیا، اسے دشمن تصور کیا جائے گا۔اور دو ہفتے کے اندر یہاں پاکستان کا پرچم لہرا دیا جائے گا۔
شمالی وزیرستان کے آپریشن کو حیلے بہانے سے روکنے میں کچھ کردار عرفان صدیقی کی پہلی امن کمیٹی نے ادا کیا، اور اب کچھ بے عملی فواد حسن فواد کی نئی کمیٹی کی وجہ سے ہے لیکن اس دوران میں طالبان نے خود ایسے بہانے فراہم کئے کہ عملی طور پر یہ آپریشن جاری رہا، کیونکہ فوج پر گولی چلائی جائے گی تواسے بھی جواب میں گولی چلانے کا حق حاصل ہے۔اور گولی مسلسل چلتی رہی، جس کے نتیجے میں سب کے لاڈلوں کا صفایا ہو گیا، یہ صفائی پاک ایئر فورس کے ایف سولہ طیاروںنے کی،اور پھر جن کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جی ایچ کیو ان کے نام بھی جاری کرتا ہے ، ان نشانہ بننے والوںمیں وہ فٹ بالر بھی شامل ہے جسے پاک فوج کے سروں کو فٹ بال بنا کر ٹھڈے مارنے کا شوق لاحق تھا۔اس کی ویڈیو آپ سب نے فیس بک پر ضرور دیکھی ہو گی، پتہ نہیںا ٓپ کارد عمل کیا تھا مگرمیرا سارا خون توسر کو چڑھ گیا تھا۔
خیبر پی کے، کی حکومت کو فاٹا کے معاملات پر رائے زنی کا حق حاصل نہیں،یہ حق آئین پاکستان چھینتا ہے، میںنے نہیں چھینا۔ فاٹا کا علاقہ صدر پاکستان کی رٹ کا حصہ ہے اور ان کے نمائندے کے طور پر گورنر خیبر پی کے اس کے نگران ہیں۔پشاور کی حکومت کاا س سے کوئی لینا دینا نہیں۔پاکستان کی دفاعی پالیسی کی تشکیل میں بھی تحریک انصاف کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں، ملک کی خارجہ پالیسی کی ادل بدل میں بھی پشاور حکومت دخیل نہیں ہو سکتی، وہ نالیاں بنائے، انصاف بسیں چلائے،یا بھنگ کے کاروبار کو کنٹرول کرے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خاں ہمہ وقت پاکستان کے دفاعی اورخارجہ معاملات کی اکھاڑ پچھاڑ کی سوچ میں غرق رہتے ہیں۔اگر ان کے اس مرض میں افاقہ نہ ہوا تو لا محالہ پشاور کی حکومت رانا ثناللہ خاں کی تحویل میں دینا پڑے گی،ا س طرح عمران خاں کو قومی معاملات کے حل کے لئے بہت سارا فارغ ٹائم مل جائے گا۔
جنرل راحیل کے وزیرستان کے دورے سے عمران خاں کے پیٹ میں اس قدر مروڑ اٹھے گا ، میں ا سکا تصور بھی نہیںکر سکتا تھا آیئے میں ایک راز کی بات بتاﺅں۔ہمارے طالبان پسند سیاستدانوں کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک چکی ہے۔ایک ایک کر کے شر پسندوں کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا۔یہ فوج کی کامیابی ہے اور یہ قوم کی کامیابی ہے، سیاستدان چاہتے تھے کہ دہشت گردی کا سلسلہ چلتا رہے اور وہ قوم کو ڈرا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہیں۔مگر فوج نے دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا ۔ جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر کہا کہ قوم نے دہشت گردوں کا گمراہ کن نظریہ مستردکر دیا ۔ دہشت گردوں کودیوار سے لگا دیا گیا ، طالبان اپنا مقصد کھو چکے،اب ملک کے شورش زدہ علاقوںمیں پائیدار امن ہے۔قوم نظریہ پاکستان کی علم بردار ہے۔فوج اورمقامی باشندوں کی ثابت قدمی قابل تعریف ہے،دہشت گردوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پاک فوج ان کا ایجنڈہ کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دے گی ، اس مشن میں پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
یہ ہے وہ درد جو دہشت گردوں کے سیاسی ونگ کی پسلیوں سے اٹھ رہا ہے، وہ اس خونی بلا کو زندہ رکھنے کے خواہاں تھے، لیکن پاک فوج نے اس کا سر کچل دیا۔اب دہشت گردوں کے ہمدرد امن کی آشا کا راگ الاپ رہے ہیں۔یہ امن کی آشا کسی کینسر سے کم نہیں۔
ایک امن کی آشا ہمیں بھارت کے طوق غلامی میں پھنسانے کے لئے ہے، دوسری امن کی آشا ہمیں دہشت گردوں کا باجگزار بناتی ہے۔یہ کسی کینسر سے کم نہیں ، عمران کو اس کینسر سے بچنا چاہئے۔