یوم تکبیر منائے جانے کا تسلسل بہت عرصے سے مجید نظامی کی قیادت میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام قائم دائم ہے۔ پچھلے سال یوم تکبیر پر بھی صدارت مجید نظامی نے کی تھی۔ نواز شریف مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے اس تقریب میں اقتصادی دھماکہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ مجید نظامی روحانی طور پر نواز شریف کو دیکھ رہے ہیں۔ اکنامک کاریڈور (اقتصادی راہداری) کا منصوبہ اس کا اعلان ہے۔ یہ راہداری بنے گی کہ اب چین بھی اس منصوبے میں ہمارے ساتھ ہے۔
میرے خیال میں نظریہ پاکستان میں یوم تکبیر کے حوالے سے تقریب سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے۔ اس کے لئے شاہد رشید اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ صدر رفیق تارڑ کی ہر تقریب میں موجودگی مجید نظامی کی یادوں میں روشنی پیدا کر دیتی ہے۔ نظامی صاحب ہر تقریب میں ہوتے تھے اور آخر تک بیٹھتے تھے۔ تارڑ صاحب نے اس روایت کو قائم رکھا ہے اور ہم لوگوں کو بہت حوصلہ ملا ہے۔ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں۔ ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد بھی لازمی حصہ ہیں۔ انہوں نے بہت خوب اور بامعنی بات کی کہ آج تین رفیق اس محفل میں موجود ہیں۔ صدر محمد رفیق تارڑ گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ اور ڈاکٹر رفیق احمد۔ رفاقت تو محبت سے بھی افضل ہے۔ قیادت کے لئے بھی رفاقت ایک ضروری جذبہ ہے۔ میں ایک شعر تینوں رفیق صاحبان کی نذر کرتا ہوں۔ یہ شعر مجھے میری رفیق حیات رفعت نے یاد دلایا ہے۔
کہا ہے عارف کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق
میں نے اپنی پیاری بیٹی تقدیس نیازی کی شادی کے دعوت نامے میں بھی یہ شعر لکھا تھا۔ مہمان خصوصی گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ نے بتایا کہ میں ایوان صدر میں صدر رفیق تارڑ کے پاس گیا تو کہا کہ میں سینٹ میں آپ کا جانشین ہوں۔ پارلیمنٹ لاجز میں وہی کمرہ مجھے ملا ہے جو آپ کے پاس تھا۔ میں اس کے آگے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ نہیں کہتے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ ایوان صدر میں بھی صدر رفیق تارڑ کے جانشین بن جائیں گے۔ انشااللہ!
انہوں نے یوم تکبیر کے حوالے سے مجید نظامی کو یاد کیا اور ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ برادرم شاہد رشید کو یاد دلایا کہ میں نظریہ پاکستان فورم ملتان کا ممبر ہوں۔ میں یہاں بھی لاہور میں باقاعدگی سے آیا کروں گا۔ ایٹمی دھماکہ صرف جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے نہیں۔ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بھی ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے اس حوالے سے یادگار کام کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
بھارت پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا ہے مگر اب پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔ نظریہ کسی صورت میں ایٹم بم سے کم نہیں ہے۔ مجید نظامی نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو ایک طاقت بنا دیا ہے۔ اب یہ روایت ہمیشہ آگے بڑھتی رہے گی۔ پاکستان کے دشمن اور بھارت کے ساتھی خوار و زبوں ہوں گے۔ شاہد رشید نے اس تقریب کو بہت مختصر رکھا اور اعلان بھی کیا کہ ہم بہت اختصار سے اس محفل کو شاندار بنائیں گے۔ مگر اس کے بعد انہوں نے ٹرسٹ کے وائس چیئرمین سابق وائس چانسلر نظریاتی دانشور ڈاکٹر رفیق احمد کو بلا لیا۔ وہ استادانہ وضاحت سے طویل بات کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے بھی اختصار سے کام لیا اور حیران کر دیا۔ چیف کوارڈی نیٹر نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور اعزازی سیکرٹری تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ میاں فاروق الطاف نے بھی چند باتیں کیں۔ وہ ممتاز صنعتکار اور پرانے مسلم لیگی رہنما ہیں۔ صدر محفل تارڑ صاحب تھے۔ انہوں نے آخر میں خطاب کیا۔ یہ تقریب ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی۔ تقریب میں موجود آغا مشہود شورش کاشمیری نے میری طرف یہ شعر بھیجا
یہ کیا ہوا وحشت میں داغ کو
اٹھا کے کہاں گھر کا گھر لے چلا
اس تقریب میں صرف نعرہ¿ تکبیر لگا دیا جاتا تو یہ بھی کافی تھا۔ اللہ اکبر۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔ وہی لوگ طاقتور ہیں جو عبدالقادر ہیں۔ پاکستان قادر مطلق کے بندوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ عشق رسولﷺ بھی انہیں جرات ایمانی سے سرفراز کرتا ہے۔ یہ بھی مسلمانوں کا اعزاز ہے۔ عشق رسول ایسی طاقت ہے جو بے مثال ہے۔ یہ ایٹمی دھماکوں سے بڑھ کر ہے۔ میں ہمیشہ پاکستان کو خطہ¿ عشق محمد کہتا ہوں۔
تقریب کے خاتمے پر بہت بڑے عالم دین علامہ احمد علی قصوری نے مجھے کہا کہ اس تقریب میں ایک شخص کا ذکر نہیں ہوا۔ اور وہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ تمام پاکستانی انہیں واقعی اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ جو عزت اور محبت انہیں ملی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ مجید نظامی نے نوائے وقت میں ان کی رہائی اور عزت و تکریم کی بحالی کے لئے لکھوایا اور پروموٹ کیا جب وہ جنرل مشرف کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب نے بنیاد رکھی جنرل ضیاءنے اس کام کو مکمل کیا۔ نوازشریف نے دھماکے کئے۔ ان تینوں کی معرکہ آرائی اپنی جگہ مگر جو کام ڈاکٹر قدیر خان نے کیا وہی کارنامہ بنا۔
تمام ٹی وی چینلز پر 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کی تصویریں دکھائی جاتی رہی ہیں۔ نوازشریف اس حوالے سے بہت نمایاں ہیں ان کے یہ الفاظ بار بار گونج رہے ہیں ”ہم نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے“ یہ ایٹمی دھماکے بھارت کے مقابلے میں کئے جا رہے ہیں۔ پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھ دھماکے یقیناً انہیں اپنے یہ الفاظ نہیں بھولے ہونگے۔ پچھلے سال یوم تکبیر کے لئے وہ مجید نظامی کے ساتھ تھے۔
آج محمد رفیق رجوانہ نے ولولہ تازہ اپنی باتوں سے پیدا کیا۔ وہ بڑی خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے نوازشریف کی نمائندگی بھی کی۔ نوازشریف کا پیغام بھی شاہد رشید نے پڑھ کر سنایا ہم نے عالمی دباﺅ کے باوجود ایٹمی دھماکے کئے۔ اب معاشی دھماکہ بھی کریں گے۔ چین کے ساتھ ایک مضبوط تعاون سے بھی عالمی طاقتیں نالاں ہیں۔ امید ہے کہ یہ کام نوازشریف کر گزریں گے مگر ایک بات ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بھارت دوستی کے دھوکے میں یہ کام ممکن نہیں ہو گا۔ ایٹمی دھماکے بھی ہم نے بھارت دشمنی کے جذبے سے کئے تھے۔ ہم بھارت دشمنی کے حق میں نہیں مگر بھارت دوستی کے حق میں بھی نہیں۔ مجید نظامی کا نظریہ بھی یہی تھا۔ نظریہ پاکستان۔
تین رفیق اور یوم تکبیر
May 29, 2015