کراچی کی عدالت نے جعلی ڈگریوں کے آن لائن اجراء کے سکینڈل میں ملوث ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی کے سربراہ شعیب شیخ اور انکے بہنوئی سمیت پانچ ڈائریکٹروں کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ ملزمان کیخلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ایف آئی اے نے گزشتہ روز انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا۔ ان کیخلاف درج مقدمے میں جعلسازی، دھوکہ دہی اور فراڈ کے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی اپنے کراچی ہیڈکوارٹر میں گذشتہ کئی سال سے اندرون اور بیرون ملک مختلف یونیورسٹیوں کے نام پر ڈگریوں کے آن لائن اجراء کا کاروبار کر رہی تھی۔ مبینہ طور پر اس کمپنی کے اس بزنس کے علاوہ بھی کئی کاروبار ہیں اور دو سال قبل اس ادارے کی انتظامیہ کی جانب سے ایک نجی ٹی وی چینل ’’بول‘‘ کے اجرا کا بھی اعلان کیا گیا جس میں مبینہ طور پر بڑے بڑے پیکیجز پر بعض معروف اینکروں کو ملازمتیں دینے اور انتظامیہ میں شامل کرنے کی باتوں سے دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ اس کمپنی کے وسائل کی جانب مبذول ہو گئی اور اسی تناظر میں گذشتہ ہفتے امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں ’’ایگزیکٹ‘‘ کے بارے میں خصوصی رپورٹ شائع ہوئی جس میں اس کمپنی کے وسیع پیمانہ پر جعلی ڈگریوں کے اجراء میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس پر پوری دنیا میں تہلکہ پیدا ہو گیا جبکہ وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت ایجنسی ایف آئی اے نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی عجلت میں اس کمپنی کے معاملات کی چھان بین شروع کر دی جو اب لاکھوں کی تعداد میں جاری کی جانیوالی جعلی ڈگریوں کی برآمدگی، کمپنی کے ڈائریکٹروں کیخلاف جعلسازی کے مقدمہ کے اندراج، انکی گرفتاری اور انکے بنک اکائونٹس منجمد کرنے پر منتج ہوئی ہے۔ اس سے جہاں ہماری میڈیا انڈسٹری میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہوئی وہیں یہ معاملہ حکومتی گورننس کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی بنا۔ ایف آئی اے نے چھان بین کے دوران 16 غیرملکی یونیورسٹیوں کا سراغ لگایا ہے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں مگر انکے نام پر ڈگریاں جاری کی جاتی رہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی’’ایگزیکٹ‘‘ کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کی تردید کی ہے۔ ’’ایگزیکٹ‘‘ کے ڈائریکٹران کا بھی یقیناً اپنے اس بزنس کے حوالے سے موقف ہو گا اور قانونی و عدالتی فورم پر انہیں اپنے دفاع کا بھی مکمل حق حاصل ہے تاہم نیویارک ٹائمز نے اگلے روز اپنے اداریہ میں ’’ایگزیکٹ‘‘ کو جعلی ڈگریوں اور اسکے دوسرے بزنس میں حکومت پاکستان کی سرپرستی حاصل ہونے کا الزام عائد کیا جس سے دنیا میں پاکستان کی مزید بدنامی ہوئی۔ اگرچہ حکومت پاکستان کی جانب سے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے تاہم یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ حکومتی ایجنسی اس اخبار کی رپورٹ پر ہی ’’ایگزیکٹ‘‘ کیخلاف حرکت میں آئی تھی جس سے بادی النظر میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت ’’ایگزیکٹ‘‘ کیخلاف کارروائی کیلئے اس رپورٹ کی ہی منتظر تھی۔ اس تناظر میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ ادارہ دنیا بھر میں جعلی ڈگریوں کے آن لائن اجراء کا کاروبار کر رہا تھا تو کسی بھی حکومتی ایجنسی کو سرے سے اسکی کوئی خبر ہی نہیں تھی چنانچہ ایسے کاروبار میں ملوث افراد کو قانون کی ڈھیل دیئے رکھنا بھی انکی سرپرستی کے زمرے میں آتا ہے اس لئے جو بھی حقیقت حال ہے وہ متعلقہ حکومتی اداروں اور دوسرے تمام متعلقین کو کھول کر بیان کرنی چاہئے تاکہ اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں اور قیاس آرائیوں کا بھی خاتمہ ہو سکے۔ اگر حکومت اس امر کی دعویدار ہو کہ اسے جعلسازی پر مبنی ’’ایگزیکٹ‘‘ کے کاروبار کا کوئی علم نہیں تھا تو یہ صورتحال حکومتی مشینری کی نااہلیت کے زمرے میں آئیگی اس لئے اب اس معاملہ کا ہر صورت ’’نتارا‘‘ ہونا چاہئے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ جعلسازی پر مبنی شعیب شیخ کے اس کاروبار کے باعث انکے ادارے ’’بول‘‘ کے ساتھ کچھ زیادہ مراعات کے حصول کی خاطر وابستہ ہونیوالے کئی نیک نام صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی ساکھ بھی تباہ ہوئی جس کے بنیادی طور پر شعیب شیخ ہی ذمہ دار ہیں جنہوں نے انکی اس نیک نامی کے باعث ہی انہیں ’’ہائر‘‘ کیا تھا۔ ان میں بعض باوسیلہ صحافیوں نے تو خود کو بول سے علیحدہ کر کے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی ہے مگر جن میڈیا کارکنوں کیلئے اس ادارے کے ساتھ ہی وابستہ رہنا مجبوری بن چکا ہے انہیں اب ’’بول‘‘ کے اکائونٹس منجمد ہونے کے باعث یقیناً مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا جبکہ ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ شعیب شیخ نے اپنے ناجائز دھندے میں ان میڈیا کارکنوں کی نیک نامی بھی برباد کر دی ہے۔