چیف جسٹس آف پاکستان نے کرپشن کے خلاف ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ان حالات میں صدیاں بھی گزر جائیں تواس ملک سے بدعنوانی اور اقربا پروری کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور یہی دو ناسور ہمارے ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے جس ’’بیماری دل‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ہمارا جان لیوا مرض ہے اور اس بلائے ناگہانی کو ہم پر نافذکرنے میں پاکستان کے تمام مقتدر اداروں کے مفاد پرست اعلی عہدوں پر فائز افراد نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے یہ ادارے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہیں یا عدلیہ کے۔ استثناء کی چند مثالوں سے معاشرتی خرابیوں کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے آج سابق چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ارسلان افتخار کے مقدمہ میں ان سے استعفیٰ طلب کیا جاتا تو وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہوجاتے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعلیٰ اوصاف کے حامل صاحبان عدل اپنے بیٹے کے مقدمے کی سماعت خود سن کر کمیشن بنا سکتے ہیں انہیں خود اپنے ضمیرکی پکار پر استعفیٰ دینا چاہیے تھا کہ کیسے ان کا بیٹا جومحکمہ صحت بلوچستان کا ایک 17گریڈ کا افسر تھا۔ جسے انہوں نے ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن میں ٹرانسفرکراکے پولیس سروس آف پاکستان میں بھرتی کروانے کی کوشش کی مگر میڈیا پر یہ رپورٹس منظر عام پر آ گئیں تو موصوف نے ملازمت ترک کر کے کاروبار شروع کر دیا اور جبکہ وہ چیف جسٹس ہائوس میں آپ کے ساتھ ہی رہائش پذیر تھا اور محض تین سالوں میں آپ کے صاحبزادے نے شعیب سڈل کمیشن میں اپنے ڈیکلئرڈ اثاثوں کی مالیت ایک ارب 20 کروڑ روپے ظاہر کی جہاں آپ نے قرآن پاک سامنے رکھ کر اپنے صاحبزادے کے کاروباری معاملات سے لا تعلقی کا اعلان کیا۔ وہیں ملک ریاض صاحب نے بھی قرآن پر حلف اٹھا کر ارسلان افتخار کو کروڑوں روپے دینے کا اقرار کیا۔ اگر آپ اس ملک میں اقربا پروری کی بنیاد پر کرپشن اور حکمرانوں کے اپنے قریبی عزیز و اقارب کو حکومتی خزانوں سے نوازنے کی داستانیں سنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیسے کیسے پارسائی کے دعوے داروں نے اس ملک کو بیدردی سے لوٹا اور اندھوں اور بے ضمیروں کے درمیان، مرتبوں، پرمٹوں، پلاٹوں اور دھن ، روپوں، جائیدادوں کو اپنوں میں ریوڑھیوں کی طرح بانٹا۔ بلوچستان کے سابق وزیرخزانہ مشتاق ریئسانی کے گھر سے63کروڑروپے کی رقم نیب برآمد کرتی ہے۔ اس عہدے کے انہیں نامزد کس نے کیا ! جناب درویش نظرآنے والے سینٹرحاصل بزنجوصاحب نے اسی طرح ارسلان افتخار کو بلوچستان میں انوسٹمنٹ بورڈ کے وائس چیرمین کے عہدے پر وزیراعلیٰ عبدالمالک نے سابق چیف جسٹس افتخارچودھری کی سفارش پر تعینات کیا اور انہوں نے یہ بات ٹی وی پر انٹرویو میں بتائی مگر جب اس آؤٹ آف میرٹ پر میڈیا میں شور اٹھا تو ارسلان افتخار صاحب نے اس عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا پاکستان میں جہاں ایوب خان سے لے کر آصف زرداری اور نوازشریف اپنے دوستوں اور وفادار بیوروکریٹس کو نوازنے کی شہرت رکھتے تھے وہاں ضیاء الحق بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے ان کی اقرباپروری کے دونمایاں کیس آج بھی موجود ہیں۔ میں آج ہی اخبار میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی پڑھ رہا تھا جس میں یہ انکشاف دوبارہ منظرعام پر آیا کہ ضیاء الحق صاحب نے 1981ء میں انسٹیٹیوٹ آف پلاننگ سٹڈیز آئی پی ایس کی ریسرچ آرگنائزیشن کو 1155گز کا پلاٹ 33سال کی لیزپر الاٹ کیا ۔ اس ادارے کے سربراہ جماعت اسلامی کے نیب نام سینئر پروفیسرخورشید ہیں۔ یہ عمارت کمرشل مقاصد کے لئے نہ تو استعمال ہوسکتی تھی اور نہ ہی اس کو فروخت کیا جا سکتا تھا۔ چند سال پیشتر اس کے بائی لاز میں CDA کے کرپٹ اہل کاروں سے مل کر تبدیلی لائی گئی اور ایک ارب سے زائد قیمت پر پروفیسر خورشید صاحب نے یہ بلڈنگ یونین کنسٹرکشن کو غیرقانونی طور پر فروخت کردی اور اپنا دفترقریب ہی کسی گھریلو عمارت میں شفٹ کرلیا اسی طرح ضیاء الحق صاحب نے اپنے یارغار بریگیڈئیر اقبال شفیع صاحب کو 25کنال سے زیادہ اراضی g-5 میں سرسید میموریل کمپلیکس بنانے کے لئے آلاٹ کی۔ اس کے بائی لازمیں بھی یہی تھا کہ اس کو C.D.A نے 33 سال کے لئے انہیں لیزپر دیا ہے اور وہ اسے کمرشل مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ عمارت بھی حکومت کے پیسوں سے تعمیر ہوئی اور جنرل پرویزمشرف کے والد بھی سرسید میموریل سوسائٹی کے اکاؤنٹس کے معاملات دیکھتے تھے تواس پر جنرل مشرف صاحب نے بریگیڈئر صاحب کو دس کروڑ روپے صدارتی فنڈز میں سے دئیے۔ ڈاکٹرعبدالقدیر خان صاحب نے بھی اپنے ادارے کی طرف سے اس کو فنڈز دئیے مگرآج بریگیڈئر صاحب نے اس عمارت میں محض اپنا ایک دفترقام کیا ہوا ہے اور کیئرنامی ادارے کو انجینئرنگ کالج کے لئے لاکھوں روپے ماہوار تک بلڈنگ کرائے پر دے رکھی ہے۔ سپریم کورٹ نے دونوں کیسزمیں ان Dealsکو غیرقانونی قراردیا ہے مگر پروفیسر خورشید اور بریگیڈئیر اقبال شفیع صاحب جیسی شخصیات پر کون انگلی اٹھا سکتا ہے ۔ کیونکہ اگروہ اپنا دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضوکریں۔ سراج الحق صاحب تواپنے کارکنوں کا ہاؤسنگ سکیم قرطبہ کے نام پر لوٹنے والوں کا احتساب نہیں کرسکے ایک ان کے لئے مسلم لیگ ن کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن کا اتنا ہی تبصرہ کافی ہے کہ جو انہوں نے اس پلاٹ کی لیزپر حاصل کرنے اور بیچنے پر سی ڈی اے کی جانب سے پروفیسر خورشید صاحب کا نام آنے پر کیا مجھے بھی کرپشن کے خلاف ایک بینردیا جائے تاکہ میں ٹرین پر لگاآؤں۔
میاں نواز شریف تو اپنے وفاداروں کو نوازنے میں حاطم طائی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی ایک دوست کشمیری فیملی راولپنڈی میں رہتی ہے۔ ایک بہن سنیٹر دوسری ایم این اے، ایک بیٹی ایم این اے اور اب ایک بیٹے کو مریم نواز نے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ پر وزیراعظم ایجوکیش ریفارمز کمیٹی کا فوکل پرسن مقررکردیا ہے۔ اگرراولپنڈی میں گنتی کے سوآدمی بھی اس خاندان کے ان نام نہاد سیاسی لوگوں کے ناموں سے آگاہ ہوں تو معجزہ ہوگا اسی طرح میاں صاحب نے اپنے خاندان کی مری میں عمارتیں تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار کو اسلام آباد کا میئر بنا دیا ہے اور شہباز شریف صاحب کے توکیا کہنے وہ اپنے چہیتے جونیئربیوروکریٹس صاحب کی آنکھ کے ایک اشارے پر ناچتے ہیں ۔ کیوں نہ ناچیں جب گریڈ 19کے افسرکو توانائی، پانی اور ویسٹ مینجمنٹ میں کمپنیوں کی سربراہی کے عوض ماہانہ دس لاکھ روپے سے زیادہ ملیں گے جبکہ ریگولرگریڈ میں انہیں محض ایک لاکھ تک تنحواہ مل رہی ہو توپھر ریاست سے زیادہ شریف خاندان کی وفاداری تو ایمان کا اصل جزو ٹھہرے گی ۔اگرآپ حکومت کی طرف سے مختلف ممالک میں تعینات سفیروں تجارتی کونسلروں اور پریس اتاشیوں پر نظردوڑائیں تو نوے فیصد حکمرانوں اور بیوروکریسی کے رشتے داران دکھائی دیں گے مخدوم امین فہیم کی بیٹی لندن میں فرسٹ سیکرٹری تعینات ہوگئیں ان کے اکاؤنٹس میں دس کروڑ بھی منقتل ہوئے۔ توجب اخبارنویسوں نے مرحوم سے اس کے متعلق معلوم کرنا چاہا تو انہوں نے کہا مجھے تو ان دونوں ڈویلپمنٹ کا علم ہی نہیں ہے۔ پاکستان کا بزنس ٹائیکون کہتا ہے مجھے اس ملک میں کام کروانے کے لئے فائلوں کو رشوت کے پہیے لگوانے پڑتے ہیں ۔ بالکل درست کہتے ہیں شہباز شریف بھی سفارش کرلیں مگراکاؤنٹس والے کسی ٹھیکیدار کا بل اپنا کمشن لئے بغیر پاس ہی نہیں کرتے ہیں۔