میں برادرم نواز شریف کیلئے دعا کرتا ہوں، وہ بستر علالت پر ہیں، میں جو تھوڑی بہت تنقیدی بات ان کیلئے کرتا ہوں وہ وزیراعظم کیلئے کرتا ہوں مگر میں نواز شریف کیلئے اولڈ راوین کی حیثیت سے ایک تعلق محسوس کرتا ہوں۔ راوین برادری ایک قبیلہ ہے جیسے ایچی سونین ہے، عمران خان نے صرف اس رشتے سے پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ خیبر پی کے بنایا ہے اور وزیر داخلہ پاکستان چودھری نثار کے لئے عمران خان نے کبھی سخت زبان استعمال نہیں کی۔ چودھری نثار نے تو عمران کا ذکر بھی کبھی نہیں کیا۔
نواز شریف کی عدم موجودگی یا غیر حاضری کی وجہ سے چودھری نثار کو انتظامی امور دیکھنے کیلئے کردار ادا کرنے کی درخواست کرنا چاہئے تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چودھری نثار اس کے اہل ہیں، کچھ کچھ اہل دل بھی ہیں۔ جب نواز شریف لندن جانے سے پہلے اپنے بھائی شہباز شریف سے ملے تو میں نے محسوس کر لیا تھا جب کوئی دکھ تکلیف ہوتی ہے تو اپنے یاد آتے ہیں۔ نواز شریف شہباز شریف سے ہی پوچھ لیتے کہ امور مملکت اور ملکی انتظام انجام دینے کیلئے کس کو ڈیوٹی دی جائے، مجھے یقین ہے کہ وہ چودھری نثار کا نام لیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ معرکہ آرائی کون کر سکتا ہے۔ پچھلے کسی کالم میں ایک جملہ مجھ سے لکھا گیا تھا، ہمارے ہاں خزانہ نہیں ہے مگر وزیر خزانہ ضرور ہے اور بہت ہے کہ وہ نواز شریف کا رشتہ دار ہے جبکہ رشتہ دار صرف دوست ہوتا ہے، اقتدار بہت ظالم چیز ہے، نواز شریف اپنی تقریروں میں اقتدار کے ساتھ اقدار کا نام بھی لیتے ہیں۔ اقتدار اور اقدار ساتھ ساتھ رہتے تو پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ نواز شریف کو الوداع بھی شہباز شریف نے کہا۔
میں مریم نواز کو اطمینان دلاتا ہوں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ انہیں نئی زندگی دے گا۔ پھر وہ پاکستان میں زندگی کو ایک اور زندگی بنا کے دکھا دیں۔ مریم نواز کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا دعا دوا سے بہتر اور افضل ہے۔ دعا میں جو طاقت ہے وہ دوا میں بھی نہیں ہے۔ ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اسے سلام دعا کہتے ہیں اور دوست سے دعاﺅں کی درخواست کرتے ہیں۔ میں گھر سے نکلتا ہوں تو میری بہت بوڑھی ماں میرے لئے دعا کرتی ہیں اور مجھے ایک نامعلوم سا یقین ہو جاتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہو گا، میں گھر واپس آﺅں گا اور اپنی سوہنی ماں کے قدموں کو ہاتھ لگاﺅں گا۔ میں جب ان کے پاس جاتا ہوں تو وہ مجھے دم کرتی ہیں، ان کی چھو میرے لئے چھومنتر کا کام کرتی ہے۔ انشاءاللہ نواز شریف ہنسی خوشی گھر آئیں گے، ان کے ہونے سے مریم نواز کا گھر مہک اٹھے گا۔ پس میری یہ خواہش ہے کہ وہ نئے نواز شریف بن کر آئیں۔ اس دکھی دھرتی کیلئے نیا زمانہ اپنے ساتھ لے کے آئیں۔ یہ دھرتی سچ مچ ماں دھرتی بن جائے، ہمیں بھی تو نئی زندگی ملے!
پاکستان میں سارے آپریشن کامیاب ہوئے، آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں رینجرز کا آپریشن ہماری قومی حمیت کی یاد دلاتا ہے۔ میں لاہور کے دل کے ہسپتال P.I.C میں شورش کاشمیری کے فرزند بہت زندہ دل دوست مشہود شورش کی عیادت کیلئے گیا۔ وہاں دل کے مریض زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ شہباز شریف اس طرف توجہ دیں۔ یہ ہسپتال اس معیار کا ہوتا کہ نواز شریف کو طبی معائنے اور آپریشن کیلئے لندن نہ جانا پڑتا۔
میری بیٹی تقدیس نیازی کی بھی ہارٹ سرجری ہوئی ہے۔ میں اس بہت معصوم کو دیکھتا تو روتا کہ اسے دل کا عارضہ کیسے ہو گیا۔ ہمارے ملک میں بھی بہت قابل اور دل والے ڈاکٹر موجود ہیں۔ ڈاکٹر جواد ساجد خان نے کمال کر دکھایا۔ ڈاکٹر عبدالواجد نے ان کی معاونت کی۔ ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر زاہد پرویز اور ماہر ٹیکنالوجسٹ ڈاکٹر طیبہ اعجاز نے محبت کی انتہا کر دی۔ یورپ اور امریکہ میں بھی پاکستانی ڈاکٹرز زیادہ قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔ ہاں ڈاکٹروں اور پروفیسروں کیلئے ایسا ماحول بنایا جائے کہ ہمارا ٹیلنٹ ہمارے پاس رہے۔ یہاں انہیں مظاہرے تو نہ کرنا پڑیں۔
جو لوگ سیاسی طور پر غیرمشروط حمایت چاہتے ہیں وہ کبھی خوش نہیں رہتے۔ جب نواز شریف جلاوطن تھے تو میں نے ان کیلئے محبت لکھی۔ ایک دفعہ صدر رفیق تارڑ کے گھر پہ ان کا فون آ گیا۔ مجھ سے بھی بات ہوئی۔ انہوں نے تعریف کی اور شکریہ ادا کیا۔ مجھے بہادر آدمی کہا۔ میں نے کہا کہ یہ میرا فرض ہے، میں تعریف کے ساتھ تنقید بھی کرتا ہوں کہ اصل تعریف کے معانی اسی راز میں چھپے ہوتے ہیں۔ تعریف پر خوش ہونے والوں کو تنقید پر ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند سے کوئی غرض نہیں ہے۔
بلاول بھٹو اور عمران خان نے بھی نواز شریف کے لئے نیک جذبات کا اظہار کیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے۔ سیاسی اختلاف ذاتی مخالفت نہیں بننا چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ نوز شریف شوکت خانم ہسپتال میں عمران خان کی عیادت کرنے کیلئے گئے تھے۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی تھی۔ رواداری، وضعداری، کشادگی، اعلیٰ ضرفی بہت اچھے اوصاف ہیں۔ یہ سیاست نہیں بننا چاہئے۔ ہر طرح کی کشیدگی کو کشادگی سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
نواز شریف جلد ہمارے درمیان ہوں گے۔ ان کو گھر جا کے مبارکباد دینا تو میرے جیسے معمولی اور بے نیاز آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ میں ان کیلئے دعاگو ہوں اور دوا کے بعد ”آمین“ بھی خود ہی کہہ رہا ہوں۔ صدر جنرل ایوب بہت بیمار ہوئے، اللہ نے انہیں صحتیاب کیا۔ جب وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے، میں ان سے ملا اور عیادت کی تو وہ مسکرائے کہ میں تو بالکل بخیریت ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے لئے یہ دن آج آیا ہے میں ملاقات کیلئے پروٹوکول اور سکیورٹی سے بہت گھبراتا ہوں۔ صدر ایوب کی مسکراہٹ کچھ اور پھیل گئی تھی....
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے