1983-84ء میں ایٹمی دھماکہ کرنا تھا‘ ضیاء الحق نے ملتوی کرا دیا : ڈاکٹرقدیر

کویت سٹی(عبدالشکور ابی حسن سے ) پاکستان نے 1983-84ء میں ہی ایٹم بم کا دھماکہ کرلینا تھا لیکن اس وقت افغانستان میں جنگ چل رہی تھی، اسلئے جنرل ضیاء الحق نے اسے ملتوی کردیا۔ محسن پاکستان اور خالق ایٹمی بم ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان عوامی سوسائٹی کے زیراہتمام یوم تکبیر کے موقع پر ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا جب بھارت نے 1973ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے ہالینڈسے بلایا اور کہا ہمیں ہر صورت میں ایٹم بم بنانا ہے، میں نے کہا کوئی بات نہیں ہم ایٹم بم بنادیں گے اور ہم نے جگہ منتخب کرکے ایٹمی ٹیکنالوجی کا آغاز کیا لیکن بعض حالات کی وجہ سے یہ نہ ہوسکا اور میں بھی واپس چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق آئے تو ایک بار پھر مجھے بلایا گیا اور ایٹم بم بنانے کا کہا، میں پاکستان کی خاطر اپنی کشتیاں جلا کر اپنے بچوںکے ہمراہ آیا تو دیکھا جو کام شروع کیا تھا وہ ا سی طرح پڑا ہوا ہے اورکچھ لوگ اس جگہ پر گپیں لگا کر وقت ضائع کررہے تھے جس پر بہت دکھ ہوا ۔ ضیاء الحق نے جو کام سونپا تو میں چند برسوں میں اسے مکمل کردیا اورکہا آپ جب کہیں گے ایٹم بم کا دھماکہ کردیں گے جس پر ضیاء الحق بہت حیران ہوئے۔ افغان وار کی وجہ سے ہمارا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ جب بھارت نے1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکہ کیا تو ہم نے بھی اعلان کردیا، ہم بھی ایٹمی دھماکہ کریں گے پوری دنیا میں ہلچل پیدا ہوگی اورامریکہ یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک ہمیں ایٹمی دھماکہ نہ کرنے پر زور ہی نہیں بلکہ دھمکیاں بھی دینے لگے اور ڈالر کا لالچ بھی دیا گیا لیکن ہمیں پاکستانی عوام کا بہت پریشر تھا ہم اسی شش وپنج میں مبتلا تھے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے پھر سب نے اتفاق کیا پاکستان کو بچانا ہے تو دھماکہ کرنا ہی پڑے گا۔ ہم دھماکہ نہ کرتے تو بھارت ہمارے شہروں لاہور، گوجرانوالہ، گلگت، سکردو تک قابض ہوجاتا۔ ہم نے اللہ تعالی کے فضل وکرم سے 28 مئی 1998ء کو دھماکہ کردیا، مجھے افسوس ہے ہم ایٹمی قوت بننے کے باوجود اس سے استفادہ نہیں کرپائے۔ اس وقت میری تجاویز کو مان لیا ہوتا تو آج ملک لوڈشیڈنگ کے ناسور میں مبتلا نہ ہوتا، حکومت نے میری صلاحیتوں کو ضائع کردیا، حالانکہ میں ایٹم بم بنانے میں اپنی 15 فیصد صاحیتیں استعمال کرسکا ہوں ۔ ملک میں آٹو موبائل فیکٹریاں قائم کی جاتی تو آج ہم امریکہ، جاپان اوردوسرے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوتے لیکن کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسادیا ۔ بیرون ممالک بسنے والے پاکستانی زرمبادلہ نہ بھیجیں تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے اوورسیز پاکستانیوںنے معشیت کو سنبھال رکھا ہے۔ میں نے آج تک حکومت سے کوئی مراعات حاصل نہیں کی اورنہ ہی ایک گز کا پلاٹ لیا۔ تیس سال قبل کویت آیا تھا اس وقت بہت گرمی تھی لیکن کویت نے ہمیں جہاں دولت دی وہاں انہوں نے گرمی کا بھی تحفہ دیا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ثمر مبارک مند، عبداللہ گل، جعفر صمدانی نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر قدیر

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...