”محکمہ انسداد بے رحمی بحال کرو۔ جانوروں کی آہ وفغاں ؟؟“

چند دن پہلے اخبار میں ایک خبر بمعہ تصویر شائع ہوئی جس میں گدھوں کے گوشت کا بڑا ذخیرہ قبضے میں لیا گیا تھا۔ ملک میں اشیاءخوردونوش میں ملاوٹ ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ پیسہ کمانے کے لےے عوام کی زندگیوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے دراصل ہمارے لیڈرز نے ملک میں جو ماحول قائم کیا ہو اہے اُس میں دولت کا حصول سر فہرست ہے۔ حلال اور حرام کا فرق مٹ چکا ہے۔ جب بات جانوروں کے ساتھ نارواسلوک کی ہوتی ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ جس معاشرے میں انسانوں پر ہر قسم کا ظلم وستم روا رکھا جاتا ہے تو وہاں جانوروں کے ساتھ ظلم کی بات بے محل سی لگتی ہے۔ آج ملک میں حکومتی انتظام کے تحت قائم ہسپتالوں ، سکولز اور دیگر فلاحی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر موجود نہیں ادویات دستیاب نہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بھی حالات مختلف نہیں ملک بھر میں ”گھوسٹ“سکولز کی بھر مارہے زیادہ زور ایسے منصوبوں پر ہے جن کا اصل مقصد صرف ”شو بازی“ اور پیسہ کمانا ہے۔
عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جس میں حلال و پاک اشیاءخوردنی کی فراہمی سر فہرست ہے۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے کھانے کی اشیاءملاوٹ اور غلاظت کا شکار ہیں۔ہمارے ذبح خانے گندگی سے بھرے ہوتے ہیں۔ پولٹری فارمز میں صفائی نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ اسی طرح دکانوں پر دستیاب گوشت اور دیگر اشیاءخوردنی پر مکھیاں بھنک رہی ہوتی ہےں۔ ہوٹلوں میں دستیاب کھانے گندگی سے بھر پورہیں۔ معاشرے کا کرپٹ طبقہ جوقوائے عقلی اور قوائے دلی سے محروم ہے وہ گوشت فروشوں سے ”سوئے ہوئے جانور“ یعنی مردہ جانوروں کا گوشت خریدتے ہیں کیونکہ یہ کم قیمتوں پر مل جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں جاگتے جانوروں (یعنی زندہ) کا گوشت مہنگا ہوتا ہے۔
مجھے اچھے طرح یاد ہے کہ 60کی دھائی تک ملک میں ”محکمہ انسداد بے رحمی“ جو عرف عام میں”بے رحمی کا محکمہ کہلاتا تھا قائم تھا۔ جو جانوروں کے تحفظ اور فلاح کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتا تھا۔ اس ضمن میں بار برداری یا دوسرے مقاصد کے لےے استعمال کئے جانے والوں جانوروں پر ظلم اور زیادتی کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔ مثلا کسی گدھا یا بیل گاڑی ، تانگے کا جانور اگر زخمی یا بیمار ہوتا تو اس کے مالک کا چالان کیا جاتا تھا اوراُسے جرمانے یا قید کی سز ا بھی دی جاتی تھی۔ اس محکمے کے اہل کار سٹرکوں پر گشت کرتے اور اپنے فرائض بڑی ذمہ داری سے ادا کرتے تھے۔ حلال شدہ جانوروں کو محکمہ خوراک چیک کرتا تھا اُن پرمہرثبت کی جاتی تھی لیکن یہ ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اس بارے میں ثبوت موجود ہیں کہ پولٹری کے پرندوں کو جو غذا دی جاتی ہے وہ خطرناک بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ اس وقت گھٹیا اور مضر صحت اور حرام جانوروں کا گوشت پورے ملک میں کھلے عام فروخت ہو رہا ہے۔
اس سلسلے میں گدھوں کے گوشت کا کاروبار اپنے عروج پر ۔ کیونکہ اس جانور کی کھال کی بیرون ملک بہت زیادہ مانگ ہے یہ گوشت ملک کے مہنگے اور پوش ہوٹلوں میں کھلے بندوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
قارئین! ملاوٹ کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اب اس پر قابو پانا نا ممکن نظر نہیں آتا۔ عوام ملاوٹ اور غلاظت سے بھرپور چیزیں کھانے پر مجبور ہیں ہمارے رہنما جو گڈ گورننس کا راگ الاپتے الاپتے نہیں تھکتے مال و دولت سمیٹنے میں اتنے مصروف ہیں کہ اُن کو اس طرف دھیان دینے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ ملاوٹ کی روک تھام کے سلسلے میں شہنار نامی خاتون جو اداکار رنگیلا کی صاجزادی ہیں نے قابل صد تحسین کارکردگی کا مظاہرہ کیا انہوں نے بڑے بڑے مہنگے ہوٹلوں میں چھاپے مار کر وہاںپر غلاظت اور ملاوٹ کے انکشافات کئے۔ اُن کو مال و دولت کی پیشکس اور دھمکیاں دی گئیں مگر جب یہ حربے کامیاب نہ ہو سکے تو کرپٹ مافیا نے حکومت سے ملکر اُن کو عہدے سے ہٹا دیا۔ ہمارے یہاں ایمان داری کا یہی صلہ ملتا ہے۔اس وقت ماہ رمضان کی شروعات ہے یہ مہینہ ایک مہمان کی طرح آتا ہے اس کی عزت و تکریم ہر مسلمان پر واجب ہے اور مسلمان ملک کے حکمران پر تو مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سستے نرخوں پر اور ملاوٹ سے پاک اشیائے خوردنی کی فراہمی کو یقینی بنائے تا کہ روزدار کو تکلیف نہ ہو۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں پر ہرچیز کے نرخ بڑھا کر سال بھر کی کمائی اسی مہینے میں کی جاتی ہے اور حکومت اپنے فرائض ادا کرنے میں کبھی آگے بڑھ کر کردار ادا نہیں کرتی۔ اب اگر ایک نظر غیر مسلم ممالک پر ڈالی جائے تو بالکل مختلف صورت حال نظر آئے گی وہ اپنے مذہبی تہواروں پر اپنی مارکیٹس میں نہ صرف بے شمار اشیاءمتعارف کرواتے ہیںبلکہ آدمی قیمت پر ملاوٹ سے پاک اشیاءفروخت کر کے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم مسلمان ہو کر مذہبی تہواروں پر خریدوفروخت اور اشیائے خوردنی کو مہنگا ترین کر کے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ کاش ہمارے رہنما کچھ وقت عوام کی فلاح و بہبود کے لےے نکالیں اور ملک سے ملاوٹ کا خاتمہ کریں۔ کیونکہ صاف اور حلال اشیاءکی دستیابی حکومت کی اولین ترین ذمہ داریوں میں سے ایک اور اہم ذمہ داری ہے۔

ای پیپر دی نیشن