مقدس برکات رمضان کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ27 رمضان المبارک کو پاکستان کا وجود مسعود تشکیل پایا تھا تو فاٹا انضمام بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے رمضان المبارک ہی میں پاس ہوا ہے۔ پختون خوا سرزمین کے غیور مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے صوبہ سرحد کا الحاق پاکستان سے کیا تھا۔ پختون مسلمانوں میں سے کچھ سیاسی عناصر نے صوبہ سرحد کے الحاق پاکستان کی مخالفت بھرپور طور پر کی تھی۔ مگر جو ’’ملک‘‘ رمضان کی مقدس فضائوں میں طلوع ہو رہاہو تو ’’امر ربی ‘‘ کے سامنے بھلا منفی قوم پرستانہ سوچ و سیاست کیا حیثیت؟ افسوس صد افسوس مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی نے مسلسل (فاٹا انضمام )عمل مسعود کی مخالفت کی ہے ان کی مخالفت اور سدسکندری بن ہوئی سیاست کے باوجود حکمران مسلم لیگ اور دیگر پارلیمانی قوتوں نے مل کر پارلیمنٹ سے یہ بل پاس کروا کر فاٹا عوام کو تکمیل پاکستان کا تحفہ دے دیا ہے ہمیں اس پر اللہ تعالی کا بار بار شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایسی پارلیمنٹ جو خود کو بار بار نااہل ، کاہل، غیر مفید و غیر مؤثر ثابت کرتی رہی تھی اس پارلیمنٹ نے اپنے آخری ایام میں تکمیل پاکستان کا نقشہ بذریعہ فاٹا انضمام بل تیار کرادیا۔ تمام اراکین پارلیمنٹ بشمول وزیراعظم عباسی ، صابق صدر زرداری اور عمران خان ، اے این پی کے اسفندیار ولی و ایم کیو ایم سب کا شکریہ …مگر یہ سب بھلا کیوں ہوا؟ صرف فوج ، ریاستی اداروں نے ناممکن کو ممکن بنا کر اپنا کردار ادا کیاہے تو کیا یہ غلط ہے؟
پاکستان اور رمضان مبارک لازم ملزوم ہیں ۔ اسی طرح رمضان مبارک اور قرآن پاک لازم و ملزوم ہیں ۔ ’’غار حرا‘‘ میں پہلی وحی مبارک 27 رمضان المبارک کو نازل ہوئی تھی جبکہ رمضان مبارک میں ہی ’’لوح محفوظ ‘‘ سے قرآن پاک کا نزول ہوا۔ سورۃ القدر میں قرآن پاک کے لیلۃ القدر میں نازل کیا‘‘۔ کچھ ایساہی مفہوم دوسری جگہ (البقرہ ) یوں بیان ہو اہے ’’ہم نے اس (قران پاک کو ) مبارک رات میں نازل کیا‘‘۔مراد دونوں سے لیلۃ القدر ہی ہے۔ کیسا روح پرور سیاسی معاملہ ہے کہ پاکستان کا ظہور لیلۃ القدر کو ہوا اور فاٹا انضمام کا بل بھی رمضان مبارک کی مسعود برکتوں کے جلد میں ظہور ہو چکا ہے۔ الحمدللہ علی ذلک نزول وحی کا پہلا مرحلہ 27 رمضان مبار ک کو ہوا ، ’’لوح محفوظ ‘‘ سے ’’لوح ایام ‘‘ میں قرآن پاک کا منتقل ہونا بھی کائنات کا اہم ترین روحانی و دینی پہلو ہے لہذا صیام رمضان کا معاملہ بھی اتنا ہی اہم اور مقدس ہے جتنا نزول قرآن کا لوح محفوظ سے لوح ایام کی طرف کا ہے یا غار حرا میں پہلی وحی کا ہے … عظیم ترین نعمتوں کے وقوع پذیر معاملات۔
دن کا روزہ نمازوں کی پابندی ، گناہوں سے اجتناب ، فواحش سے نفرت اس مقدس ماہ کی خصوصی برکات ہیں ۔ نماز تراویح کو ’’ قیام اللیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ کچھ مسالک آٹھ کچھ بیس رکعات تراویح پڑھتے ہیں ۔ یہ نفلی نماز ہے۔ آپؐ نے صرف تین دن نماز تراویح با جماعت پڑھائی اور یہ مقدس قیام اللیل آخری عشرے میں ہوا۔ بعدازاں اس اندیشے سے کہ قیام اللیل (تراویح ) فرض نہ ہو جائے آپؐ نے اس کی باجماعت ادائیگی تر ک کر دی۔ ’’تہجد ‘‘ ان نوافل کو کہا جاتا ہے جو نصف رات کے بعد ادا ہو۔ سورۃ المزمل اور سورۃ بنی اسرائیل میں اسی قیام اللیل کا تذکرہ اور اہمیت بیان ہوئی ہے۔ تلاوت قرآن پاک اور سماعت مقدرہ قرآن پاک خواہ قیام اللیل کی صورت میں ہو یابغیر نماز کے ، یہ سب محبوب ترین وہ عمل ہے جس کے روحانی اثرات مسلمان فرد ، خاندان ، معاشرے ملک پر نازل ہوتے ہیں۔ وہ کس قدر خوش قسمت ہیں جن کو یہ سعادت میسر ہے کہ وہ رمضان مبارک کے روزے رکھ رہے ہیں ۔ خود تلاوت قرآن کے عمل میں مشغول رہتے ہیں۔ نماز تراویح کی صورت نفلی قیام اللیل سے فیض یات ہوتے ہیں اور نصف شب کے بعد سوی سے پہلے تہجد کے نوافل بھی ادا کرکے خود کو رحمت رب العالمین کا بار بار مستحق بنا کر پشن کرتے ہیں ، اس مہینے میں بطور خاص ’’افطاری سے پہلے ‘‘ خصوصی طور پر دعاکرنی چاہیے۔ فرمان نبویؐ کے مطابق افطاری سے پہلے کی گئی دعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں لہذا یہ قبولیت دعا کا خصوصی وقت ہے ’’عبادت‘‘ نماز کا اصل تو ’’دعا‘‘ عبادات کا اصل ہے دعاء نماز کے اندر ہو یا نماز کے بعد یا افطاری سے ذرا ساپہلے ، ہمیں ان مقدس ایام میں بھرپور طور پر عبادت اور دعا کا ’’اجتماع ‘‘ کرنا چاہیے اور دین و دنیا کے حوالے سے جو بھی ضرورتیں ، خواہشات ، تقاضے ہیں وہ دعاء کی صورت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے رہنا چاہیے۔ ابھی دو عشرے باقی ہیں ہمیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ اپنے ملک کے لئے عالمی و علاقائی سطح پر تمام مسلمان ممالک و معاشروں کے لئے ، مظلوم کشمیریوں اور روہنگیا مسلمانوں ، اہل فلسطین کے لئے دعائیں کرنا ضروری ہے۔ مظلوم عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بھی ، سیاسی طو پر مسلمانوں میں پیدا شدہ افتراق و اختلاف اور دشمن کے خاتمے ، شیعہ و سنی اتحاد و محبت، اہل حدیث بریلوی، دیو بندی ان سب میں سماجی و دینی محبت کی دعائیں بہت مطلوب امر ہیں۔ معاشرے اور سماج میں محبت، انسانیت کے فروغ اور فرقہ وارانہ نفرتوں ، تعصبات کا خاتمہ اسلامی حقیقی درس ہے اقلیتوں سے حسن سلوک اور ان سے حسن معاملہ ہمارا مقصد بھی ہو نا چاہیے۔ اخلاقی اصول و روایات اور ضوابط پر عمل سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ’’طرہ امتیاز‘‘ ہونے کا عہد رمضان میں لازما ہونا چاہیے جبکہ متوقع انتخابات میں ان اصول و ضوابط کا زیادہ نفاذ ہونا چاہیے۔ آخر میں بیت اللہ شریف کا تذکرہ ، بیت اللہ شریف میں شاہ مسعود بن عبدالعزیز کے عہد میں دو امام تھے جو خطبہ جمعہ اور نمازوں کی امامت کا فرض اداکرتے تھے ۔ (1)امام عبداللہ الخلیفی جومدرسہ العزیز یہ کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔(2) امام الھیمن ، تیسرے امام صرف نماز عیدین کی امامت کے لئے وقف تھے یہ الشیخ عبدالعزیزآل شیخ تھے جو محمد بن عبدالوہاب کی اولاد تھے ، بیت اللہ شریف میں تراویح (قیام اللیل ) کے بعد نماز تہجد کا آغاز امام عبداللہ الخلیفی نے شروع کیا۔ پہلے دن صرف 40 آدمیوں نے امام الخلیفی کی امامت میں نمازتہجد ادا کی تھی۔ ماشاء اللہ اختتام رمضان تک یہ تعداد اتنی بڑھ گئی کہ بیت اللہ شریف کے ہر طرف نماز تہجد با جماعت کا عمل جاری رہتا۔ آج کل 30 لاکھ کے قریب مسلمان بیت اللہ شریف میں نماز تراویح (قیام اللیل)ادا کرتے ہیں ۔ بیت اللہ شریف میں پہلی دس رکعات تراویح ایک امام کی زیر صدارت مکمل ہوجاتی ہے تو یہ امام مصلی سے الگ ہو جاتے ہیں اور پھر دوسرے امام … دس رکعت نماز نفل تراویح کی امامت کراتے ہیں ، عملاً یہ آٹھ رکعت بھی ہوگئیں اور بیس رکعت بھی۔ یہ عملی سعودی حکومت کی طرف سے ’’مصلحت عامہ ‘‘ کے تحت ہوتا ہے تاکہ جو بیس رکعت پسند کریں اس کا اہتمام میسر پائیں۔
پس تحریر: اگر کسی کو نماز قیام اللیل اور تہجد کے حوالے سے مسنون اور صحیح روایات و احادیث کی روشنی میں مطالعے کا شوق ہو و اسے عربی زبان میں امام مروزیؒ کی کتاب ’’قیام الیل ‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ الحمد للہ میں نے یہ کتاب عنفوان شباب میںخرید اور بار بار اس کے مطالعے سے روحانی مسرتیں حاصل کرتا ہوں۔