مسلم لیگ ن کی پانچ سالہ حکومت کا دور اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ مارشل لاء کی چھتری کے بغیر یہ مسلسل دوسری سول حکومت ہے جس نے پانچ سالہ میعاد پوری کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ 2008 سے 2013 کی پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومت کو بھی متعدد بحرانوں اور اداروں کے دبائو کا سامنا رہاتھا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے دو تین ماہ بعد ہی حکومت گئی کہ گئی کہ آوازیں سننے کو ملنے لگی تھیںتا ہم آصف زرداری نے بحیثیت صدر مملکت اور سید یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم لچکدار رویے کا مظاہرہ جاری رکھا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اس وقت گھر جانا پڑا جب وہ صدر آصف علی زرداری کے سامنے ڈھال بن گئے تھے۔ بہر حال پیپلزپارٹی کی حکومت نے نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد ایک آدمی ایک ووٹ کے ذریعے مارشل لاء کی چھتری کے بغیر آنے والی پہلی سول حکومت کا میعاد پوری کرنے کے بعد اگلی سول منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرنا ترقی پذیر پاکستان کی جمہوریت کیلئے نیک فال قرار دیا گیا اور اب جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے تمام تر بیرونی اور اندرونی سازشوں اور اداروں کی باہمی کھینچا تانی کے دوران 2013سے 2018کی پانچ سالہ مدت پوری کرلی ہے اگرچہ مسلم لیگ ن اس دوران 28 جولائی 2017کو اپنے پارٹی لیڈر اور وزیراعظم نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئی لیکن پانچ سالہ میعاد کے بقیہ گیارہ ماہ وزیراعظم کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی نے نبھائے ۔ بلاشبہ شاہد خاقان عباسی کا مختصر دور ان کیلئے بڑا امتحان ثابت ہوا۔ جہاں ایک طرف پارٹی اپنے لیڈر سے اقتدار اور پارٹی صدارت کے عہدے سے محرومی کے صدمے سے دو چار تھی اور دوسری طرف اداروں کے درمیان خوشگوار تعلقات نہیں رہے تھے۔ حکومت اور حکمرانوں کو قدم قدم پر دوسرے اداروں میں سے بعض کی مداخلت کا سامنا رہا تاہم شاہد خاقان عباسی نے بے جگری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیئے اور اس امتحان کو درجہ اول میں پاس کیا۔
مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہم نے جن بیرونی سازشوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک ’’نیوگریٹ گیم ‘‘ تھی جو کہ امریکہ نے پاکستان کو ڈو مور کا مطالبہ نہ ماننے پر سزا کے طور پر کھیلی۔ پاکستان کے ممتاز اور معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کی ’’نیو گریٹ گیم ‘‘ پر روشنی یوں ڈالی کہ امریکہ کے ڈو مور کے مطالبے پر پاکستان نے جب پس و پیش کیا تو انہوں نے آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو نخرے دکھانے کی سزا دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ پاکستان میں پراپرٹی کی خریدو فروخت پر حقیقی ٹیکسیشن نہیں ہوتی سو پراپرٹی جتنی مالیت کی ہو اتنی مالیت ہی ظاہر کرتے ہوئے اسکی رجسٹری کروائی جائے اور یوں پراپرٹی کی مد میں ٹیکسیشن میں اضافہ کیا جائے وگرنہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیاجائے ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پراپرٹی پر ٹیکسیشن چونکہ صوبائی معاملہ بن چکا تھا سو وفاقی حکومت نے صوبوں کو اس اقدام پر راضی کرنے کی بے پناہ کوشش کی لیکن صوبے آمادہ نہیں ہوئے۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی جس کے منشور میں درج ہے کہ پراپرٹی کی حقیقی مالیت سے کم کی مالیت شو کرکے رجسٹری کروانے والی جائیداد کو قومی ملکیت میں لے لیا جائیگا۔ انکی صوبائی حکومت خیبر پختونخوا نے بھی محض وفاق کو نیچا دکھانے کیلئے اس کی مخالفت کر دی وگرنہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں بھی مجبور ہو جاتیں کہ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر حقیقی ٹیکسیشن کی جائے۔ چنانچہ وفاقی حکومت کو بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ نوازشریف کے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہو جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یہ دوسرا بڑا جھٹکا برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے، سٹاک ایکسچینج بیٹھ گئی اور مڈل کلاس کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ روپے کی قدر میں دو مرتبہ کمی کرنی پڑی۔ پاکستان کے ریزرو 8 ارب ڈالر سے گر گئے۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا کہ ایمر جنسی لگاؤ، اُدھر اداروں کے درمیان ٹکراؤ جاری تھا۔ سپریم کورٹ حیرت انگیز تیزی کے ساتھ چاہے جائز ہی سو موٹو ایکشن لے رہی تھی۔
گویا 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اسے دہشت گردی، بجلی کی کمی، معیشت کی بد حالی سمیت جن مسائل کا سامنا تھا اُن سے نمٹنے کیلئے جس سیاسی ماحول کی ضرورت تھی وہ میسر نہیں آیا۔ 14 اگست 2014ء کو عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کی طرف جو دو الگ الگ مگر آگے پیچھے (ٹوچن) لانگ مارچ شروع کئے تھے وہ اسلام آباد میں دھرنے میں تبدیل ہو گئے۔ 126 دن کے دھرنے کے دوران جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انوکھا باب ہے تاہم دھرنے کا اختتام ون پوائنٹ ایجنڈا ’’نوازشریف مستعفی ہوں‘‘ پورا نہ ہو سکا۔ اسکے بعد پانامہ سکینڈل آیا اور بالآخر سپریم کورٹ کے ذریعے وزیراعظم نوازشریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف کی سیاسی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ وہ اب نہ تو ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں اور نہ ہی پارٹی کے صدر لیکن اس کے باوجود عوام میں اُن کا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بے حد مقبول ہوا ہے۔ اُن کے جلسے خوب ہو رہے ہیں۔ اُنکی صاحبزادی مریم نوازشریف بھی ملک کی بڑی سیاستدان اور مسلم لیگ (ن) کی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ میاں شہباز شریف جو کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے کارکردگی کا بے مثال ریکارڈ رکھتے ہیں مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب ہونے کے بعد دیگر صوبوں کے دوروں پر جا رہے ہیں اور اُن کو شاندار پذیرائی مل رہی ہے۔ آزاد حیثیت میں جیت کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونیوالے اور الیکشن 2013ء سے پہلے مسلم لیگ (ق) چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونیوالے بہت سے رہنما مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ’’الیکٹ ایبل‘‘ کہا جاتا ہے۔ انکے پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے بلاشبہ پی ٹی آئی کو خاصی تقویت حاصل ہوئی ہے تاہم اُنکے ذمہ داران کے یہ دعوے کہ الیکشن 2018ء میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 90 نشستیں جیتیں گے خلاف حقیقت ہیں۔ پی ٹی آئی اتنی اونچی اڑان اڑے گی تو الیکشن کے نتائج کے بعد مطلوبہ نشستیں خواہش کے مطابق حاصل نہ کرنے کے باعث انہیں جس مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اسکے ملکی سیاست پر برے اثرات مرتب ہونگے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹر آج بھی نوازشریف، شہباز شریف کے ساتھ کھڑا ہے اور فیصلہ ووٹر نے کرنا ہے کہ اقتدار کس جماعت کو سونپا جائے۔ تاہم پچھلے دو ماہ میں معروف اور اچھی شہرت رکھنے والے اداروں کے جو سروے سامنے آئے ہیں اُنکے مطابق مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف، شہباز شریف مقبولیت میں سب سے آگے ہیں۔ 25 جولائی اب دو ماہ سے کم فاصلے پر ہے۔ نتیجہ سامنے آ جائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا۔بہرحال جیت جمہوریت ہی کی ہونی ہے جو آج بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اوراپوزیشن لیڈر نے خورشید شاہ کے جسٹس (ر) ناصرالملک کے نگران وزیاعظم کے نام پر اتفاق رائے سے جیتی ہے۔