اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقیات و اصلاحات کے اجلاس میںوزارت منصوبہ بندی اور اس کے ماتحت کے اداروں کے کام کے طریقہ کار اور کارکردگی کے علاوہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)میں مختلف منصوبہ جات کے لیے مالی سال 2018-19میں مختص کیے گئے فنڈز اور منصوبہ جات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے تفصیلی بریفنگ لیتے ہوئے وزارت منصوبہ بندی سے تاخیر کا شکار ہونے والے منصوبہ جات کا جائزہ لیکر تفصیلی رپورٹ اور منصوبوں کی تاخیر کے مرتکب افسران کی نشاندہی اور و جوہات آئند ہ اجلاس میں طلب کرلی۔ سیکرٹری منصوبہ بندی شعیب احمد صدیقی نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پی ایس ڈی پی میں 1030ار ب روپے مختلف منصوبہ جات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 800 ارب روپے حکومت دے گی۔ 230ارب روپے پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے خرچ کئے جائیں گے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا پی ایس ڈی پی کا منصوبہ ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ قومی ترجیحات اور طریقہ کار کو ن طے کرتا ہے، ڈیٹا کس طرح تیار ہوتا ہے اور جو معلومات فراہم کی جاتی ہے قابل بھروسہ نہیں ہوتیں۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منصوبہ جات لمبے عرصے ، درمیانے اور مختصر عرصے کے ترتیب دیئے جاتے ہیں جو مختلف ورکشاپس ، سیمینار کا انعقاد کراکر ماہرین، وزارتیں اور صوبوں کی رائے کے مطابق ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی وزارت منصوبہ بندی کے دو اہم فورم ہیں۔ 27منصوبہ جات پر وزارت کام کررہی ہے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ اور شبلی فراز نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں سی پیک کے حوالے سے سینیٹر تاج حیدر کی صدارت میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے جامع رپورٹ تیار کی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے تمام دستاویزات اور وہ رپورٹ پیش کی جائے۔ پائیڈ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ریسر چ کا ادارہ ہے۔ 173آرٹیکل لکھے گئے 517پی ایچ ڈی2015میں انرولڈ کیے گئے۔ 2017-18میں 709انرول کیے گئے۔ ادارے نے گزشتہ پانچ سالوں میں 173تحقیقی اسٹڈی کروائی 5سالانہ جنرل میٹنگز کروائیں 11تربیتی پروگرام کرائے گئے اور 105سیمینار منعقد کرائے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ اورسینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ صوبوں کو آبادی کے تناسب سے دیا جاتا ہے جو کہ پسماندگی کے تناسب سے متعین کرنا چاہیے۔ سیکرٹری منصوبہ بندی نے قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ بلوچستان میں پانی کی سپلائی وڈیمز کے لیے ریکارڈ فنڈز مختص کیے گئے ہیں اور صوبوں کو ضرورت کے مطابق فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ حکومت کے ترجیحات سیکٹرز میں مواصلات ، توانائی ، پانی ، صحت شامل ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ جات کی تکمیل کے لیے فنڈز اور وقت دگنا صرف کیا جاتا ہے۔ جس پر سیکرٹری منصوبہ بندی نے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے منصوبہ جات میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کو پی ایس ڈی پی کے منصوبہ جات سے تفصیلی آگا ہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ دسمبر 2019 تک 10ہزار میگاو اٹ بجلی کے منصوبہ جات پائپ لائن میں ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے فائلر اور نان فائلر کے نئے قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ریلوے کی بحالی کے حوالے سے بجٹ 16ارب سے 40 ارب کرلیا گیا ہے۔ گوادر میں 175 ارب کے 36 منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کو پورا کرنے کے لیے پی ایس ڈی پی نے بجٹ 36ارب سے بڑھا کر 80ارب کردیئے ہیں۔
سینٹ قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی کا اجلاس، پی ایس ڈی پی منصوبوں کا جائزہ
May 29, 2018