سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا موسم

پاکستانی سیاست میں آشیانے بدلنے کا موسم تیزی سے رواں دواں ہے۔عجب نام سے پکارے جانے والے یہ نمائندے ایک جماعت چھوڑ کردوسری جماعت میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں جہاں سے جا رہے ہیں وہاں سے واپسی کے دروازے بند کر دینے کے اعلان ہو رہے ہیں اور جہاں آج ان کی منزل ہے وہاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ’’ایلکٹ ایبلز ‘‘ ہیں کوئی جملہ کس رہا ہے کہ کیا پٹواری اب دوسری جماعت میں تحصیلدار ہو گئے ہیں تو میں ہر طرف بیتابی کی اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں اور میں میاں نواز شریف کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جونیجو لیگ سے جب ن لیگ بنی تو نام بدل کے آپ کے گھونسلوں میں یہی پرندے آ سمائے تھے اور آپ پھولے نہ سماتے تھے۔ پھر جب آپ جدہ تشریف لے گئے تو یہی اراکین ق لیگ میں تھے لیکن جب انہوں نے ق لیگ سے دوبارہ آپ کے سائبان پہ پرواز کی تو میاں صاحب آپ نے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ کیا یہ وہی لوگ نہ تھے جو بقول آپ کے ’’قدم بڑھاؤ نوا زشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کے جوشیلے نعرے لگا کر اپنی موجودگی اور ہمراہی کا عندیہ دیا کرتے تھے لیکن آپ خود فرماتے ہیں کہ جونہی قدم بڑھے تو آپ نے مڑ کے پیچھے دیکھا کوئی نہ تھا۔کیا آپ کو اس وقت سمجھ نہ آئی ۔میاں صاحب آپ نے ان کو ان کی بے وفائی کے باوجود بانہیں کھول کے خوش آمدید کہا کیونکہ وہ ’’ ایلکٹ ایبلز ‘‘ تھے-
کہتے ہیں کہ 2013ء میں میاں صاحب کی باری طے شدہ تھی تو پھر میاں صاحب آپ نے کیوں انہی پہ اکتفا کیا اور کیوں نہ ملک کو نئی لیڈرشپ دی اور آج اگر وہ پھر آپ کو چھوڑ گئے ہیں تو کیا نیا ہوا ہے کہ بل کھاتے ہوئے میاں صاحب آپ ہر جلسہ اور ورکرزکنونشن میں انہیں کوس رہے ہیں۔ جب چھانگا مانگا کی یونیورسٹی سے تعلیم کا آغاز ہی کچھ یوں ہوا تھا اور بعد کی تربیت میں بھی بہاؤ کے رخ بہنا ہی سکھایا گیا تھا تو کیا غلط ہوا ہے ۔
سیاست میں ذاتی مفاد پرستی کی داغ بیل کس نے ڈالی تھی۔ کس نے منتخب ہونے کے بعد ان الیکٹ ایبلز سے فاصلہ اتنا بڑھا لیا تھا کہ ہاتھ ملانے کا بھی وقت نہ تھا ۔ کون ہے جو اپنے انتخاب کے بعد ان کے درمیان بیٹھنے کیلئے چار سال میں صرف پنتالیس دن قومی اسمبلی میں گیا تھا وہ بھی تب جب کٹھن مراحل در پیش تھے۔جاوید ہاشمی صاحب سے زیادہ تو آپ کی خدمت کسی نے نہ کی تھی وہ جب گئے تھے تو ان کی وجوہات پہ بھی کبھی آپ نے تہہ دل سے غور کیا تھا ۔ یہی حساب پنجاب کے خادمِ اعلیٰ صاحب کا ہے کہ انہوں نے کتنی دفعہ پنجاب اسمبلی کو اپنی موجودگی کا احسا س دلایا کہ ان کے رابطے اپنے ساتھیوں سے برقرار رہتے ۔ اس سے چار دانگِ عالم یہی تاثر پھیلا کہ وہ سب اقتدار کی کرسی پہ بیٹھنے کیلئے آپ کی ایک سیڑھی ثابت ہوئے تھے ۔ آپ نے ان کی ضرورت گاہے بگاہے دیے جانے والے تجارتی فنڈز گردانے اور انہوں نے اس کے عوض اسمبلی میں آپ سے وفاداری نبھائی جب ایک رکن کی اہمیت آپ کی نظر میں یہی تھی تو پھر یہ شورو غوغا کیسا ۔ آپس کا اَن لکھا معاہدہ اگر اب ٹوٹ گیا ہے تو پھر پنچھی بھی بھلا کب تک ان کھلیانوں میں بیٹھے رہتے ہیں جہاں دانا دنکا ہی نہ ہو اور ایسا کیا پہلی بار ہوا ہے، ہر بار یہی ہوتا ہے تو ملکی اداروں سے شکوہ کیسا؟
کن اشاروں کی بات میاں صاحب؟ آپ اتنے مقبول لیڈر ہیں تو کیا ان کے بغیر آپ کی بات نہ بنتی تھی یا ان کے بغیر گزارہ نہ تھا ۔ کہتے ہیں ان انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بھر مار ہوگی اور ان آزاد پرندوں پہ سب کی نظر ہے ۔ ان پہ نظر ٹکائے آصف زرداری صاحب اگلی حکومت کیلئے پر تول رہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر سندھ میں تمام نشستیں جیت لی جائیں اور پھر پنجاب سے ان کامیاب آزاد اراکین کے دل اور وفاداریاں خرید لی جائیں تو چنداں مشکل نہیں کہ اگلی دفعہ تخت و تاج ان پہ مہربان نہ ہو۔ ایک بساط بچھائے وہ اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اگر کل ناکامی ہو تو پیادوں پہ سارا الزام کیوں دھرنا، پانامہ ہنگامہ کی مہربانیوں کے بعد بلوچستان سے لگائی گئی چوٹ میاں صاحب ابھی نہ بھولے تھے کہ ساٹھ ارکان پنجاب سے چھوڑ گئے، اگر ان اراکین نے وفا نہ کی تو آپ نے بھی ماضی سے کیا سیکھا اور ان کو بھی کیا سکھایا۔ اس صورتحال اور حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) شدید دباؤ اور مخمصے کا شکار ہے۔ پارٹی کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مختلف بیانات اور بے موقع گھن گرج کے باعث بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ نواز شریف صاحب کے حالیہ خطابات اور احتساب عدالت میں ارشادات نے کئی نئے محاذ کھول دئیے ہیں ۔ ان انکشافات کے بعد براہمداخ بگٹی ، امریکہ میں پینٹاگون اور بھارت میں مودی سرکار کے افکار سے جھڑتے پھول ان کے بہت سے ساتھیوں کو بھی گراں گزر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اتنے کمزور نہیں کہ انہیں اس کھیل سے باہر رکھا جاسکے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ آئندہ کا منظر نامہ انتہائی غیر واضح اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے اگر یہ سمجھ بھی لیا جائے کہ مسلم لیگ (ن) مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی تب بھی وہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں سے خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ضرور ہے ایسی صورتحال میں جبکہ اگلی مخلوط حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں تو وہ کون سی دو بڑی جماعتیں ہوں گی جو اتحاد کرکے مرکز میں حکومت بنائیں گی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ تحریک انصاف کا پیش کیا جانے والا سو روزہ پروگرام بھی اس سلسلے میں ایک نہایت اہم کڑی ہے کہ جواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ابھی سے شاید اپنی الگ حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے اور اس کا کسی بھی پارٹی سے الحاق نہ کرنے کا اعلان انتخابات کے نتائج کی بے یقینی کو آشکار کر رہا ہے۔ عوام نے بھی اپنی زندگی میں اس قدر بے یقینی کا شکار الیکشن کبھی نہیں دیکھے کیونکہ پارٹی توڑنے والے بھی خوفزدہ ہیں اور متاثر ہونے والے تو پہلے ہی سے خوفزدہ ہیں ان حالات میں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ عوام کا موڈ بہت مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ اس سال انتخابات میں شاید ایسے غیر یقینی نتائج بھی نکلیں جو سب کو حیران کردیں۔ اس لئے سب ابھی دل تھام کے بیٹھیں کہ یہ آشیانے بدلتی سیاست نہ جانے کس کروٹ بیٹھے اور کون سی پارٹی کے سر پہ بیٹھا یہ ’’ہما ‘‘ پاکستان کا مستقبل لکھے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...