ہم نے دیکھ ہے کہ اچھا انسان بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان غصے کے منہ زور گھوڑے کو قابو میں رکھے وگرنہ غصے کا گھوڑا اُچھل اُچھل کر انسان کو زمین پر گرا دے گا۔ ہمارے ہاں غصہ اتنا عام ہے کہ اس کا جادو ہر جگہ سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔ غصے کے لیے زیادہ قابلیت و اہلیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ شوہروں کا ایسا ہے کہ انہیں غصہ بہت زیادہ آتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اگر غصے میں اپنی بیویوں، بچوں اور سسرالی عزیزوں کو قتل کرنے والے شوہروں پر تحقیق کی جائے تو ایک اچھا خاصا ’’انسائیکلوپیڈیا پھڑکانیکا‘‘ مرتب ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شوہر غصے کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے وہ قتل بھی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کرامات کر رہے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے ایک غصہ ہسپتالوں میں پروان چڑھا ہے ا ور یہ غصہ عموماً مریضوں کے لواحقین ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملے پر نکالتے ہیں۔ مریض کے لواحقین جب مریض کو لے کر ہسپتال آتے ہیں تو ڈاکٹروں سے کہتے ہیں ہمارے مریض کو فی الفور داخل کریں اور صحت مند بھی کردیں۔ ڈاکٹر صاحبان اگر مریض کے لواحقین کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیں کہ وارڈ کے ہر بیڈ پر پہلے ہی تین تین مریض موجود ہیں اور ہم بہ امرِ مجبوری آپ کے مریض کو داخل کرنے سے قاصر ہیں تو لواحقین کیتن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ اپنی مونچھوں کوتائو دیتے ہوئے ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملہ پر حملہ کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات مریض کو اس وقت ہسپتال میں لایا جاتا ہے جب اس کی حالت بہت نازک ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر اپنا فرض نبھاتے ہوئے گولی، کیپسول یا انجکشن ہی سے علاج کرے گا۔ اگر مریض جانبر نہ ہو سکے تو لواحقین ڈاکٹروں پر یہ کہتے ہوئے پل پڑتے ہیں کہ ڈاکٹر نے غلط گولی یا غلط انجکشن سے مارا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غصہ بہت عام ہو گیا ہے ا ور اب تو اس کا پتہ سمجھانا بھی بہت آسان ہے۔ پنجاب اسمبلی کے باہر مال روڈ پر ہر محکمے کے لوگ وقتاً فوقتاً غصہ نکالتے پائے جاتے ہیں۔ جب سڑکیںا ور راستے بند ہو جاتے ہیں تو راہ گیروں کو غصہ نکالنے والوں پر غصہ آ جاتا ہے۔ ہماری پیاری پولیس کا غصہ بھی بہت مشہور ہے۔ تھانوںمیں پولیس کا غصہ دیدنی ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ غصے کا کہیں اور بھی اتا پتا مل سکتا ہے تو ہم کہیں گے کہ غصے کا پتا بہت آسان ہے۔ اگر تم نے غصے سے ملاقات کرنی ہے تو ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی کے لیڈروں کو آن ائیر دیکھ لو۔ پی ٹی آئی کے سب سے بڑے لیڈر کپتان (اب وزیراعظم) دھرنے دیتے تھے اور نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر لیڈروں کے لتے لیتے ہوئے اپنا غصہ اتارتے تھے۔ عمران خان صاحب اپنی زبردست صلاحیتوں کو بروئے کنٹینر لاتے ہوئے نواز شریف حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان دنوں کپتان کے غصے کی آواز میں آواز ملانے والے شیخ رشید پیش پیش تھے۔ شیخ صاحب اس شعر کے مصداق تقاریر کیا کرتے تھے۔
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کردوں تو ’’شیخ‘‘ نام نہیں
پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد ہمارا خیال تھاکہ جس تبدیلی اور نئے پاکستان کے لیے روح پرور نغمے گائے گئے تھے، ان کی بنیاد پر حکومت آگے بڑھے گی لیکن محسوس یہ ہوا کہ نواز شریف کی حکومت گرانے اور انہیں جیل بھجوانے سے پی ٹی آئی کا غصہ دور نہ ہوا۔ عمران خاں صاحب نے جس جس ملک کا دورہ کیا، وہاں ن لیگ کی منی لانڈرنگ کا تذکرہ کیا۔ تاحال پی ٹی آئی کے لیڈر ن لیگ کے تابوت میں اپنے غصیلے بیانات ٹھونکتے نظر آتے ہیں۔ ’’کوئی این آر او نہیں ملے گا، میں چوروں ڈاکوئوں کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ گزشتہ دنوں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب بھی سینٹ میں ن لیگ کے خلاف اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر رہے تھے۔ جب نواز شریف جلوس کی شکل میں کوٹ لکھپت جیل جا رہے تھے تو فردوس عاشق اعوان غصے سے بھرے تیر چلا رہی تھیں۔ اب لوگ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ اگر ساری دیانت داری، تقویٰ و پرہیز گاری اور نیک نفسی و نیک نیتی پی ٹی آئی ہی میں جمع ہو گئی ہے تو عوام کے لیے کچھ کرکے دکھائیے۔ جس روز پٹرول کی قیمت بڑھی لوگ پٹرول پمپوں پر کھڑے کہہ رہے تھے۔ ’’مزا چکھ لیا تبدیلی کا‘‘ غصے کے حوالے سے مشہور شاعر و افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی مرحوم و مغفور نے ایک ہمیشہ ناراض رہنے والے دوست کے بارے میں کہا تھا ’’موصوف نے غصے کو بے وقارکردیا ہے۔‘‘
غصے کو بے وقار نہ کیجئے
May 29, 2019