اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی‘ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے ایک بات پھر زور دیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا عالمی مسئلہ ہے جس سے عالمی انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس عالمی مسئلے سے جامع انداز میں اور عالمی حل کے ذریعے نہیں نمٹا جائے گا تو دنیا، آبادی کے ایک بڑے حصے کا غربت کے شکار ہونے کی وجہ سے کساد بازاری سے باہر نہیں آسکے گی۔ انہوں نے یہ بات کینیڈا اور جمیکا کے وزرائے اعظم، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مشترکہ طور پر زیر صدارت کووڈ 19 اور اس کے بعد ترقی کے لیے مالی اعانت سے متعلق ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے کہی۔ اجلاس میں فرانس، جنوبی افریقہ اور قازقستان کے صدور بھی شریک تھے۔ عمران خان نے لاک ڈائون کے تناظر میں کہا کہ اگر تمام چیزیں رک گئی تو ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کے سب سے کمزور طبقے اور ہماری معیشت کے غیر رسمی شعبوں میں متاثر ہونے والے لوگوں کی دیکھ بھال کیسے ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 22 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی میں سے 15 کروڑ افراد غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہیں جن میں یومیہ، ہفتہ وار اجرت حاصل کرنے والے افراد ہیں اور اسی آمدنی پر ان کا اور ان کے خاندان کا گزارا ہوتا ہے۔ 'ہم اپنی معیشت کی بہتری کے لیے 8 ارب ڈالر کا پیکج دینے کی استعداد رکھتے تھے جو ہم نے دیا اور یہ ہماری ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکج ہے۔ ہم نے احساس پروگرام کے تحت نقد رقم دینے کا پروگرام شروع کیا۔ امریکہ نے 3 ٹریلین ڈالر کا پیکج دیا جبکہ جرمنی ایک ٹریلین یورو اور جاپان ایک ٹریلین ڈالر کا پیکج دے رہا ہے، اگر اس کا ہم ترقی پذیر ممالک سے موازنہ کریں تو ترقی پذیر ممالک مجموعی طور پر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے 7 ٹریلین ڈالر کا پیکج دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرونا سے ہماری برآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں، بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو بحال کریں اور اپنے معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے وسائل کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کی طرف منتقل کرنا پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے سیاحت کے شعبے کی بحالی کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں یہ کوششیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اس طرح کی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ اس نازک مرحلے پر ترقی پذیر ممالک اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، جب میں نے ایتھوپیا اور نائیجیریا کے وزرائے اعظم اور مصر کے صدر سے بات کی تو انہوں نے بھی بتایا کہ وہ بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر جی 20 ممالک کی طرف سے قرضوں میں ریلیف دینے کے بڑے اقدام کا خیر مقدم کیا۔ تاہم انہوں نے کہا اس معاملے پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کی جائے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ خطرہ ہمارے اندازے سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی آبادی ایک ارب 50 کروڑ اور ترقی پذیر ممالک کی آبادی 6 ارب کے لگ بھگ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وائرس نے عالمی معیشت پر بہت برے اثرات چھوڑے لیکن ترقی پذیر ممالک زیادہ متاثر ہوئے، ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں، ترقی پذیر ممالک کی امداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین 2021 کے اختتام سے قبل دستیاب ہونا ناممکن ہے، تاہم اب تک کے حالات سے لگتا ہے کہ ویکسین 2021 میں بھی ممکنہ طور پر تیار نہیں ہو سکے گی۔ عالمی وبا کرونا وائرس کے دوران دنیا کی معیشت پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، کرونا وائرس پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس سے مل کر نمٹنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی ممالک کے برعکس ترقی پذیر ممالک کے پاس اپنی معیشت کی بحالی اور اپنے کمزور طبقات کی دیکھ بھال کرنے کے لیے مالی گنجائش نہیں ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متھدہ انتونیو گوتریس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں ریلیف دیا جائے۔ انہوں نے کاہ کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو کرونا کے باعث مالی مشکلات ہیں۔ بیشتر ترقی پذیر اور متوسط آمدن والے ممالک مقروض ہیں۔ ترقی پذیر اور متوسط آمدن والے ممالک کو قرضوں سے نجات دلوانا ہوگی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان سے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے ملاقات کی جس میں ملک کی سیاسی صورتحال اور ریلوے کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں شہریوں کیلئے ٹرین کی سہولت اور ایس او پیز پر بات چیت کی گئی۔ جبکہ مزید ٹرینیں چلانے سے متعلق بھی مشاورت ہوئی۔ شیخ رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم ہدایت کریں تو مزید ٹرینیں چلائی جاسکتی ہیں۔