حیدر قریشی۔جرمنی
مبارکہ حیدر : وفات ۷۲ مئی ۹۱۰۲ء
مبارکہ کی یادوں اور باتوں کا سلسلہ جاری ہے۔جہاں ادبی احباب نے اپنے تبصروں،مضامین اور تاثرات سے نوازاہے وہیں بعض عزیزواقربا نے بھی اپنے بے ساختہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔پانچوں بچوں کی اپنی اپنی یادوں نے بھی سماں باندھ دیا ۔ میرے ۹۲ سال پہلے لکھے گئے خاکہ”پسلی کی ٹیڑھ“کے دوسرے حصہ کے بر وقت لکھے جانے اورروزنامہ ”نوائے وقت“کے سنڈے میگزین میں دو اقساط میں اہتمام کے ساتھ چھپنے سے اسے وسیع پیمانے پر پڑھا گیااور قارئین نے اس پر اپنے تاثرات سے بھی نوازا۔مذکورہ بالا سارے سلسلہ نے تحریک کی تو مبارکہ کی کچھ اور یادیں،کچھ اور باتیں بھی ذہن میں آنے لگیں۔سو مزید جوتھوڑا بہت ذہن میں آرہا ہے،بیان کر دیتا ہوں۔رضوانہ نے لکھا ہے:” دادی جان کی طرح امی بھی لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتی تھیں۔“
اسے پڑھنے کے بعد عثمان نے مجھ سے ذکر کیا کہ باجی نے تو اپنی بات صرف اولاد تک محدود رکھی ہے لیکن میں نے تو اپنی ساری زندگی میں امی کو کسی سے جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔نہ کسی ہمسائی سے،نہ کسی ملنے جلنے والی سے،نہ کسی رشتہ دار سے،کسی سے بھی امی کو جھگڑاکرتے نہیں دیکھا۔عثمان کا یہ نکتہ دل کو لگا۔چنانچہ پھر میں نے سارے بچوں سے کہا کہ ذہن پر زور دیں کہ زندگی میں کبھی مبارکہ کو کسی سے،کسی سے بھی لڑتے جھگڑتے دیکھا؟ ۔۔۔۔سب کی طرف سے یہی جواب ملا کہ امی کو کبھی کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔پھر بعض قریبی عزیزوں سے یہی سوال کیا، وہاں سے بھی یہی جواب ملاکہ نہیں،کبھی جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔اور اب میں سارے عزیزو اقارب کے لیے یہ بات کہتا ہوں کہ کسی عزیز کو زندگی کے کسی مقام پر مبارکہ کا جھگڑالو عورت کا روپ دیکھنے کا موقعہ ملا ہو تو ضرور بتائے۔ جھگڑوں اور فتہ و فسا د سے دور رہنے کی یہ ایک اہم اورقابلِ قدر خوبی ہے جو مبارکہ کے مزاج کا حصہ تھی۔ ہمارے محلوں کے ماحول میںخواتین کا لڑنا جھگڑنا عام معمول رہا ہے،پھر ہمارے اپنے رشتہ داروں میں بعض بڑی ”بہادر“قسم کی خواتین رہی ہیں جو گندی زبان استعمال کرنے کے ساتھ مارپیٹ تک کرنے سے دریغ نہیں کرتی تھیں۔ایسی بزرگ خواتین سے بھی مبارکہ نے کوئی فیض حاصل نہیں کیا۔بس اپنی پھوپھی (میری امی) کی طرح اعراض،صبراور خاموشی کے ساتھ فتنہ و فساد سے گریز کرتی رہیں۔
گندی زبان کے معاملے میں بھی مبارکہ نے ہمیشہ محتاط زندگی گزاری۔بلکہ اب یاد آرہا ہے کہ ایک زمانے میں مجھے پنجابی اسٹیج شو اور بعض اردو کامیڈی شو کافی پسند تھے۔شروع میں مبارکہ نے یہ سب تھوڑا سا دیکھا لیکن وہ جلد ہی ایسے پروگراموں سے متنفر ہو گئیں۔ بعض شوز میں ذو معنی اور بعض میں کھلم کھلا فحش گوئی اتنی زیادہ تھی کہ مبارکہ ٹی وی والے کمرے سے ہی اُٹھ گئیں۔میں نے ایک آدھ بار اصرار کرکے بلانا چاہا تو ہنستے ہوئے کہنے لگیں ایسے پروگرام بچوں کے ساتھ تو کیا دیکھنا، میاں بیوی کا بھی ایک ساتھ دیکھنا غیر اخلاقی لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ایسے پروگرامز میں قابلِ احترام رشتوں کی تضحیک بھی مبارکہ کو سخت نا پسند تھی۔اگر ہمارے کامیڈینز اپنے شو زمیں ان دو بڑے عیوب پر قابو پالیں تو آج بھی وہ ورلڈ کلاس کامیڈی کر سکتے ہیں۔ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرامز کے آجانے کے بعد ان عیوب پر کچھ قابو پایا گیا ہے لیکن ابھی مزید توجہ کی اشد ضرورت ہے۔اور اس کے ساتھ ہی یہ بات طے ہے کہ مبارکہ میں یہ بڑی اہم خوبی تھی کہ وہ خواتین کے روایتی جھگڑوں سے ہمیشہ دور رہیں اور کبھی مذاق میں بھی کسی کے ساتھ گندی زبان میں بات نہیں کی۔ہاں میرے ساتھ بے تکلفانہ کلام کرناالگ معاملہ ہے،لیکن اس میں بھی کسی گندی زبان کے استعمال کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں مبارکہ کی میرے ساتھ یہ بے تکلفی بس اتنی ہی ہوتی تھی کہ پتہ نہیں چلتا تھا بیٹے سے مخاطب ہیں یا شوہر سے؟۔
شعیب نے اپنی یادوں میںدرست لکھا ہے کہ: ” ابو مجھے اپنی سلطنت کا ولی عہد کہتے تھے اور امی ابو کی سلطنت کا مذاق اڑایا کرتی تھیں۔“
میری بادشاہت اور میری سلطنت کا صرف مذاق ہی نہیں اُڑایا جاتا تھا بلکہ مبارکہ اس سلطنت کا حدودِاربعہ ایسے انداز میں بیان کرنے لگتیں کہ جی چاہتا سب تخت و تاج چھوڑ کر کسی جنگل کی راہ لی جائے۔
مبارکہ نہانے کی بہت زیادہ عادی تھیں۔ہر روز نہیں تو دوسرے روز ضرور نہاتیں۔میں اس معاملہ میں کافی سست ہوں۔مبارکہ نہانے کا کہتیں تو میں بات بدل دیتا۔ایک بار جب زیادہ اصرار کیا تو میں نے انہیں جوگندر پال کے ناول ”پار پرے“ کا یہ اقتباس پڑھ کر سنایا۔
”تم ایک نہاتی بہت ہو بی بی“
”تم جو نہیں نہاتے بابا۔تمہارا نہانا بھی نہ نہا لیا کروںتو تمہارے قریب کھڑا ہو کے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے۔“
ایک بار مبارکہ نہا کر باتھ روم سے نکلیں،میں سامنے ڈرائنگ روم کے صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔تولیہ سے سر کے بالوں کو خشک کرتی ہوئی مبارکہ بیگم کہنے لگیں۔”تُسّی وی نہا لَو۔“
میں نے اپنی لہر میں ہنستے ہوئے جواب دیا ”سُکّا ای؟“ اور پانچ بچوں کی ماںکچھ شرماتے،کچھ مسکراتے اورکچھ بڑبڑاتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔
شادی کے شروع کے چند سال ہم لوڈواور بارہ ٹہنی کھیلا کرتے تھے۔لیکن میں ہر بار مبارکہ سے ہار جاتا تھا۔مسلسل ہارنے کے نتیجہ میں ان گیمز سے بیزاری ہونے لگی اور میں مبارکہ کے ساتھ کھیلنے سے گریز کرنے لگا تومبارکہ میری بے زاری کی وجہ کو بھانپ گئیں۔چنانچہ ایک بار مبارکہ جان بوجھ کر گیم ہارنے لگیں۔تب میں نے کہا لوگ جیتنے کے لیے تو تھوڑی بہت ”بئی مانی“ کر جاتے ہیں لیکن مبارکہ بیگم! آپ ہارنے کے لیے اتنی بڑی ”بئی مانی“کرنے لگی ہیں۔یہ نہیں چلے گا۔بہر حال پھر میں نے ان گیمز کے معاملہ میں مستقل طور پر ہتھیار ڈال دئیے۔مبارکہ سمیت کسی سے بھی کھیلنا بند کر دیا۔
”پسلی کی ٹیڑھ“کا دوسرا حصہ چھپنے کے بعد سارے عزیزواقارب،دوست احباب اور ادبی قارئین نے نہ صرف تحریر کو سراہا بلکہ سنڈے میگزین میں اس کی پیش کش کے انداز کو بھی بہت پسند کیا۔صرف ایک عزیزہ نے ہلکا سا کہا کہ جب تحریر اتنی اچھی ہے تو ساتھ تصویریں چھپوانے کی کیا ضرورت تھی۔میں نے کہا کہ اس مسئلہ کے کئی پہلو ہیں ،میرے ساتھ ان پر گفتگو کر لیں۔وہ اس طرف تو نہیں آئیں لیکن میرا جی چاہ رہا ہے کہ اس مسئلہ پر اپنا موقف واضح کر دوں۔
ایک پہلو یہ ہے کہ زمانے کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اگر تصویر کا جواز نکل ہی آیا ہے تو اس میں بھی سامنے کی بات ہے کہ ہر مردوزن کے سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات میں،شناختی کارڈ،پاسپورٹ، انشورنس کارڈ،غرض ہر ڈاکومنٹ میں مردہو یا عورت ہر ایک کی تصویر سجی ہوئی ہے۔یہ کوئی چھُپی ہوئی تصویریں نہیں ہیں۔اگر یہاں تک ساری خواتین کی تصویریں موجود ہیں تو کسی اخباریا رسالے میں کسی خاص موقعہ پر کسی خاتون کی تصویر چھپنے میں کیا حرج ہے۔آپ شف شف کہہ رہے ہیں،خیر ہے کہتے رہئے۔ہم صاف صاف شفتالو کہہ رہے ہیں۔اس کا بھی برا مت منائیے۔ کل تک سینما کو شرمناک برائی سمجھنے والے طبقے،آج دیکھ رہے ہیں کہ اب ہر مردو زن کی مٹھی میںپوری دنیا کے ماضی و حال کا پورا سینما موجود ہے۔لیکن مجال ہے کسی نے اس کا نوٹس لیا ہو۔خواتین کی تصویر کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
مبارکہ ذاتی طور پر پردہ کرتی تھیں۔لیکن اس میں چہرہ کھلا رہتا تھا۔ان کی تصویریں ۱۹۹۱ءسے چھپ رہی ہیں۔پاکیزہ رسالے میں۔میرے انٹرویوز کی کتاب میں،کتاب”ہماری امی مبارکہ حیدر“ کے سرورق پر،مبارکہ کے جی میل اوروٹس ایپ اکاو¿نٹس میں۔۔۔۔میری انٹرنیٹ البم میں۔۔۔وہ اپنے پردے کے باوجود ان تصویروں کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتی تھیں۔خوش ہوتی تھیں۔اور اب بھی ان کی تصویریں چھپ رہی ہیں تو کسی کو برا منانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں شروع سے اب تک مسلسل لکھتا آیا ہوں،کہتا آیا ہوں کہ مبارکہ سے میرے سارے تعلق کی بنیاد میری امی سے مشابہت ہونے اور ان کی بھتیجی ہونے پر استوار ہے۔یہ رشتہ جتنا مستحکم اور کامیاب ہوا اس میں مبارکہ کی وہ ساری خوبیاں کام آئیں جو ان میں پہلے سے موجود تھیں اور جومیری امی کے ذریعے ان میں مزید پختہ ہوئیں۔۔۔