شہباز شریف پی پی سے ملکر اپوزیشن کے خواہاں، اپنی جماعت ہی زیادہ مخالف

تجزیہ:محمد اکرم چودھری
کیا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ پیپلز پارٹی کے معاملے پر کچھ دو کچھ لو کی پالیسی اختیار کرے گی، کیا پیپلز پارٹی اپنے موقف میں نرمی پیدا کر سکتی ہے، یہ سوال سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ فریقین میں تلخیاں کم ہونے کا امکان موجود ہے کیونکہ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گذارا نہیں ہے۔ اب یہ میاں شہباز شریف کا امتحان ہے وہ کیسے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے راہ ہموار کرتے اور پی پی پی کے مخالفین کو قائل کرتے ہیں۔ شہباز شریف بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں لیکن اس معاملے میں ان کی سب سے زیادہ مخالفت ن لیگ کرتی ہے، وہ مفاہمتی سیاست کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اس معاملے میں انہیں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا اپنی جماعت سے ہی ہے۔ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ معاملات کو بہتر بنا کر آگے بڑھنے کے خواہشمند ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت میں اس سوچ کی مخالفت ہے۔ یوں میاں شہباز شریف ہر طرف سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں انہوں نے یہ تو ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو متحد کر سکتے ہیں، ایک سنجیدہ اور ہر جگہ قابل قبول سیاست دان کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف، مریم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، پرویز رشید کی خامیوں کو ساتھ لے کر چلنا اور ان کے لیے راستے نکالنا ہی میاں شہباز شریف کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ ان سب لوگوں کی مدد،  مشکل سے نکالنے کے لیے شہباز شریف سے بہتر کام کوئی نہیں کرے گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات کا فائدہ پاکستان تحریکِ انصاف کو ہو گا۔ مریم نواز شریف، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی اور پرویز رشید میاں نواز شریف کے ریاستی اداروں کو متنازع بنانے کے بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے ریاست اور ریاستی اداروں کے تحفظ کے بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ رانا ثناء اللہ وکٹ کے دونوں طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ کھل کر نواز شریف کی مخالفت کر رہے ہیں نہ ہی میاں شہباز شریف کے حق میں بات کر رہے ہیں لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کا جھکاؤ میاں شہباز شریف کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون میں ریاستی اداروں کے مخالف دھڑے نے اپنا موقف تبدیل نہ کیا تو مستقبل میں جماعت کو سیاسی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی ہو گی اور سیاسی میدان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ریاست کی حفاظت اسی صورت ممکن ہے جب ریاستی اداروں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔ عوام کی ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ محبت غیر مشروط ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ہمخیالوں کی منفی سیاست شہباز شریف کے مسائل میں بھی اضافہ کر سکتی ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف کا بیانیہ بھی مقبول ہو رہا ہے، نون لیگ کے سینئر سیاستدان شہباز شریف کے مصالحتی کردار کی تعریف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کے انداز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن  وہ ریاست، ریاستی اداروں کے تحفظ کے حوالے سے وہ منفی سوچ نہیں رکھتے ہیں۔ شہباز شریف کو ملک کی جغرافیائی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہے وہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال، مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات اور دفاعی ضروریات کے پیش نظر ریاستی اداروں کی رائے، کردار کو سمجھتے ہوئے ہر سطح پر استحکام کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ اپنی سوچ اور پالیسی تو واضح کر چکے ہیں اب انہیں جماعت کی سطح پر اجتماعی فیصلے کی ضرورت ہے۔ اگر نون لیگ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر یکساں پالیسی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہو گا۔ احسن اقبال کا یہ کہنا کہ میاں نواز شریف کی رائے کے بعد کوئی رائے نہیں ہوتی نہایت غیر جمہوری رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ جموری روایات کے نعرے لگانے والے نون لیگ کے تمام سیاسی کارکنوں کو کم از کم اس بیان کے حوالے ضرور کچھ سوچنا چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...