بطور اپوزیشن لیڈر مشترکہ حکمت عملی بنانا ذمہ داری: شہباز شریف حکومت کو سہارا دینا جرم:ـ فضل الرحمن

May 29, 2021

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی)  قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس آج ہو رہا ہے جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال، آئندہ بجٹ کے علاوہ افغانستان کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔ بطور اپوزیشن لیڈر مشترکہ لائحہ عمل بنانا میری ذمہ داری ہے۔ وہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ وفد کے دیگر ارکان میں شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، مریم اورنگزیب شامل تھیں۔ ملاقات کے بعد دونوں رہنمائوں نے میڈیا سے گفتگو کی۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہم امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد پڑوسی ملک میں امن چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پی پی اور اے این پی کے علاوہ تمام پارٹیاں موجود ہوں گی اور وہیں  پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی اتحاد میں واپسی کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم متفقہ فورم ہے۔ کسی جماعت کو اختیار نہیں کہ ایک پارٹی کو نکالے یا شامل کرے۔ میری ذاتی کوئی رائے نہیں ہے۔ ایک سوال پر میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے عشایئے میں صرف پارلیمانی لیڈرز کو بلایا تھا۔ اس لئے اس عشایئے میں مولانا فضل الرحمان نہیں تھے، ہم نے یہ اجلاس اس لئے بلایا تھا تاکہ بجٹ کے حوالے سے حکومت کے خلاف لائحہ عمل بنا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کرونا کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے ابھی تک صرف خیرات میں ملنے والے انجیکشن ہی عوام کو لگائے ہیں۔ اگر صرف چینی، پٹرول، گندم، سبسڈی اور دیگر شعبوں میں ہونے والی کرپشن کا پیسہ ہی کرونا ویکسین پر خرچ کر دیا جاتا تو حالات بہتر ہوتے۔ منتخب وزیراعظم کو اگر ریاست مدینہ کا ذرا بھی لحاظ ہوتا  تو ملک کے کونے کونے میں ویکیسن سنٹر بنتے، لوگ جھولیاں بھر بھر کر وزیراعظم کو دعائیں دیتے۔ جب ڈینگی آیا تو ہم نے میاں نواز شریف کی ہدایت پر جگہ جگہ سپرے کروائے، میں نے اور وزراء نے خود ہر جگہ جا کر اقدامات کا جائزہ لیا، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جو حکمران  قوم پر مسلط کئے گئے ہیں وہ نااہل ثابت ہوئے ہیں اور نااہلوں کو سہارا دینا اس سے بڑا جرم ہے۔ ہم اداروں کو بھی موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں۔ اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، کچھ عرصہ قبل دینی مدارس پر نقب لگائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار پاکستان میں ایسا ہوا ہے کہ مرض تو آئے مگر علاج کی کوئی صورت نہیں ہے۔  زبردستی ایسے قوانین ہم پر مسلط نہ کئے جائیں جو آئین کے مطابق نہیں، ہم داخلی طور پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ان حالات میں مزید حالات خراب ہوں گے۔ متروکہ وقف املاک بورڈ پاکستان کے آئین اور بنیادی حقوق کی نفی ہے۔ اسے نظریاتی کونسل میں بھجوانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کشمیر پر سودا کرکے ہم تعلقات بہتر کرسکتے تھے مگر کیا قوم کو بیچ کر اس مسئلے پر بات کریں گے؟۔ فاٹا میں عوام کو کیا کیا سبز باغ دکھائے گئے۔

مزیدخبریں