چوہدری نثار علی خان نے بالآخر ممبر صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے حلف اُٹھا ہی لیا۔ وہ 2018ء کے انتخابات میں پی پی 10 سے رکن منتخب ہوئے تھے چونکہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے برے طریقے سے ہارے تھے اس لیے احتجاجاً ایم پی اے کی حیثیت سے حلف نہیں اُٹھا رہے تھے۔ اس معاملے میں جو منطق وہ پیش کرتے ہیں بہرحال اس میں کافی وزن ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت انہوں نے اپنا انتخابی نشان جیپ رکھا تھا۔ منٹوں گھنٹوں میں پاکستان بھر سے بیسیوں اُمیدواروں نے اپنے لیے اسی نشان کو منتخب کیا۔ سوچ یہ تھی کہ چوہدری صاحب نے ’’کسی‘‘ کے کہنے پر اس انتخابی نشان کو چنا ہے۔ اب بھی کہا جاتا ہے کہ چوہدری صاحب نے ’’کسی‘‘ کے کہنے پر حلف اٹھایا ہے۔ یہ سوچ اس وقت بھی غلط تھی اور اب بھی۔ موجودہ حالات میں ایک نئے آرڈیننس کی بازگشت ہے ممکن تھا کہ چوہدری نثار اس کی زد میں آکر صوبائی نشست سے محروم ہو جاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنے بیٹے تیمور کو میدان میں اُتارتے جو فی الحال بیرون ملک ہیں۔ پچھلے الیکشن میں ایک نشست پر ’’ن‘‘ نے مرکز میں قمر الاسلام راجہ کو اپنا اُمیدوار بنایا تھا اور انتخابی مہم کے لیے صوبہ سرحد کے سابق وزیراعلیٰ نصراللہ خان خٹک کے ’’چہیتے‘‘ کو انچارج بنایا تھا، گووہ سیٹ تو نہ جیتی جا سکی مگر انہوں نے چوہدری نثار کے خلاف بہت زہر اُگلا۔ اب اگر یہ نشست خالی ہو جاتی تو ’’ن‘‘ نے پھر قمر الاسلام کو اپنا اُمیدوار بنانا تھا اور اس بار مریم صفدر ان کی انتخابی مہم میں آتیں اور بہت حد تک ممکن تھا کہ وہ جیت جاتے اس طرح چوہدری نثار کے ہاتھ کچھ بھی نہ رہتا۔ چنانچہ ان کے حلف اُٹھانے کی صرف اور صرف یہ وجہ ہے، کوئی ان کے آگے ہے اور نہ پیچھے۔ چوہدری صاحب آٹھ بار قومی اسمبلی میں پہنچنے والے واحد سیاستدان ہیں۔ مرکزی راہنما کے طور پر ان کا بڑا قد کاٹھ ہے۔ وہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ کئی تگڑے ایم این اے ان کی صدارت میں بولنے سے پہلے کئی بار سوچتے تھے۔ ان سے ملنا یا بات کرنا اتنا آسان نہیں تھا چنانچہ میری دانست میں ایسی شخصیت کا اس صوبائی اسمبلی میں بیٹھنا جہاں راولپنڈی کے فیاض الحسن چوہان، راشدحفیظ اور اعجاز جازی جیسے ممبران بیٹھے ہوں کہ جب چوہدری نثار علی خان نے سیاست شروع کی تھی یہ اس وقت پنگھوڑوں میں لوریاں سنتے تھے۔ کوئی زیب نہیں دیتا۔ چنانچہ بہت حد تک گمان یہ ہے کہ جب تیمور پاکستان آ جائیں گے تو عین اس وقت چوہدری نثار استعفیٰ دے دیں گے اور اپنی نشست سے بیٹے کو الیکشن لڑائیں گے تب تک حلقہ کے لوگوں سے راہ و رسم بھی کافی استوار ہو چکے ہوں گے۔
ہر آئے دن پی ڈی ایم کا جنازہ نکلتا جا رہاہے۔ اندرونی لڑائی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شہباز شریف نے پی ڈی ایم والوں کو ڈنر پر مدعو کیا۔ جواباً مریم صفدر کہنے لگیں کہ یہ دعوت شہبازشریف نے بحیثیت لیڈر آف اپوزیشن کی ہے ان کا پی ڈی ایم اور اس کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ دوسری طرف بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ مریم صفدر کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم نے اگر ’’ن‘‘ سے رابطہ کرنا ہے توشہباز شریف صدر پارٹی سے بات کریں گے اوراگرپارلیمانی سطح پر ضرورت ہوئی تو لیڈر آف اپوزیشن سے بات کریں گے۔ ایسے حالات یں بہت حد تک یوں محسوس ہورہاہے کہ آنے والے وقت میں نواز شریف اور مریم صفدر کا پارٹی میں کردار محدود ہوتا جائے گا اور شہباز شریف کی پارٹی کے اُمور پر گرفت مضبوط ہوتی جائے گی۔ دوسری طرف سندھ میں گورننس کے بہت ہی برے حالات ہیں۔ سپریم
کورٹ بار بار ان کی نااہلیوں اور نالائقیوں پر بات کر چکی ہے۔ شیخ رشید کا حالیہ دورہ سندھ معنی خیز معلوم ہوتا ہے اور شاید کوئی خاص ’’نتائج‘‘ برآمد ہوں ۔ سپریم کورٹ میں ایک خاص کیس کے حوالے سے صدرِ مملکت کی جانب سے نظرثانی کی ایک اور اپیل جمع کروائی گئی ہے۔ بنیادی طور پر کچھ اعتراضات لگے ہیں لیکن راوی کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ اعتراضات کا جواب دے کر اسے قابل سماعت بنوانے کی کوشش کی جائے گی یا نئی قانون سازی ہو سکتی ہے اور اگر کچھ بھی نہ ہو سکا تو شاید ’’کچھ اور کرنے‘‘ کے لیے یہی سب سے بڑا جواز بن جائے۔ ایک ملک اور ریاست میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شہری کسی بھی ادارے، ایف بی آر، ایف آئی اے، سپریم جوڈیشل کونسل کو جواب ہی نہ دے۔ گویا وہ تمام طرح کے قوانین سے بالا تر ہو اور ماضی دیکھیں تو حسین حقانی سے اسحاق ڈار تک یعنی جنہوں نے غداری کی اور جنہوں نے اس ملک کو لوٹا سب کو فائدہ ہی فائدہ اور ببانگِ دہل فیصلے افواجِ پاکستان کے خلاف، یہیں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ’’خدمات‘‘ کس کے لیے سر انجام دی جا رہی ہیں۔ جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر اسرائیل اور یہودیوں کا کنٹرول ہے وہ ایک عام خبر کو بھی جتنا چاہیں بڑھا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں اور دوسری طرف علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے کا بلیک آئوٹ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنے لیے کام کرنے والوں کو انہوں نے نہ صرف تحفظ دینا ہے بلکہ ان کو نیک نام بنا کر دینا دنیا بھر میں تشہیر کرنا ہے ابھی چند ہی دن قبل ہوائی جہاز میں ایک مرد اور خاتون کی نازیبا حرکات وائرل ہوئی۔ حتیٰ کہ جہازکے عملے نے انہیں ایک کمبل فراہم کر دیا مگر عملہ اور مسافر ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے، دلچسپی کی بات یہ کہ یہاں ان کا دفاع کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ملائشیا کے دانشوروں کی موجودگی میں یہ تو ابھی شروعات ہے ابھی تو ’’لچکداری‘‘ کے کئی اور نمونے پیش ہوں گے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اعلیٰ ادارے کو بھی کمبل فراہم کر دیا گیا تھا۔ تسلیم کہ ہم ایک قوم نہیں ایک ہجوم ہیں، بے حس اور خود غرض ہیں، مگر جب قومی اور ملکی سلامتی کی بات ہو، ہدف ہمارا مشترکہ دشمن ہو تو ہم تمام اختلافات بھول کر ایک ہو جاتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ جہازہے کہ جس میں اِدھر اُدھر سے آئے مسافر ہیں کہ جہاں اخلاقیات کا جنازہ نکلتے وقت کمبل فراہم کر دیا جائے۔ ہم بہرحال غیور قوم ہیں ہمیں یکجا ہو کر مصلحت ایسا کمبل اُتارنا ہی ہو گا۔