جنگ بندی تو ہوگئی لیکن معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔نہتے فلسطین بہن بھائیوں کے ساتھ بچوں کی شہادت نہایت تکلیف دہ بات تھی۔فلسطین سے محبت ہر مسلمان کے دل میں ہونا ایک قدرتی بات ہے، فلسطین ایک خطہ زمین نہیں بلکہ ہمارے انبیاء کی سرزمین ہے۔نمازفرض ہونے کے بعد یہی مسلمانوں کا قبلہ اوّل مقرر ہوا۔مسجدالحرام کے بعد دْنیا میں بسائی جانیوالی یہ پہلی مسجد ہے اور اس مسجد سے ہمیں اس قدر عقیدت آخر کیوں نہ ہوکہ ہمارے پیارے نبی ؐ کو معراج شریف پر لے جانے سے قبل اسی مسجد میں لایا گیا تھا جہاں اْنہوں نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی۔فلسطین والوں کے ٹوٹے ہوئے دل جنگ سے تھکے ہوئے بدن اور درد سے لبریز آنکھیں لیکن اپنے موقف اپنے اجداد کی اسلاف کی خاطر ہر قربانی دینے والے اور اپنی جانوں پر کھیل جانے والے ان فلسطینی بہن بھائیوں اور بچوں کی قربانیوں کو بھلا کون مسلمان فراموش کرسکتا ہے۔ہم آواز اْٹھا سکتے ہیں،نعرے بلند کرسکتے ہیں۔اپنے طور پر جو ممکن ہوا وہ کرینگے لیکن میدان جنگ میں رہ کر اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو شہید ہوتے دیکھ کر نئے جذبے سے پھر سے خود کو تیار کرنے کی کوئی قیمت نہیں ہے۔کوئی مول نہیں ہے۔ عین عید والے دن اسرائیل کی فلسطین کیخلاف اس ہٹ دھرمی اور بے شرمی کو بھلا جنگ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جنگ کے بھی آخر کچھ اْصول ہوا کرتے ہیں۔ کیا جنگوں میں معصوم بچوں کو بھی شہید کیا جاتا ہے۔ آج دْنیا کی مہذب قومیں وہ کردار کیوں ادا نہیں کر رہیں جو اپنے کسی ایک بندے کیساتھ کوئی زیادتی ہونے پر پوری دْنیا میں ہنگامہ برپا کردیتی ہیں۔یہی وہ خطہ ہے جس کی جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی تھی۔شرک سے پاک ہونے کے باعث موسیٰ علیہ السلام نے اس جگہ پر اپنے اْمت کو داخل ہونے کا حکم دیا تھا۔یہی وہ خطہ ہے جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اْمت نے حکومت کی تھی اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کا مشہور زمانہ واقعہ اسی خطہ کی یادگار ہے جسے بعد میں وادی نمل کا نام دیا گیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی یہیں ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اْٹھانے کاواقعہ بھی اسی شہر میں ہوا اور لوگ کہتے ہیں بلکہ کافر کہتے ہیں کہ یہ خطہ اْنکے حوالے کردیا جائے۔آپ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر احتجاج کیا جائے لیکن کس اْمید پر کیا جائے۔آپ نے کبھی غور کیا کہ تمام یہودونصاریٰ جہاں جہاں بھی مسلمان ہیں اْن کے مخالف ہی نظر آتے ہیں۔ یہ سب مظالم کیا اْن کے ڈھکے چھپے ہیں ہرگز نہیں لیکن دانستہ انہیں فراموش کیا جاتاہے۔بین الاقوامی ادارے اور تعاون تو وہی ہے جس نے جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے بعد یہودی وجود کو خود مسلمانوں پر مسلط کردیا تھا۔9دسمبر1917 کو برطانیہ نے فلسطین پر حملہ کیا تو اسی عالمی برادری نے برطانیہ کے اس طرح غیر قانونی خطہ زمین پر قبضہ کرنے اور اس جیسے دیگر ناجائز قابضین کے طرزِ عمل کو جائز قرار دینے کیلئے10جنوری1920ء کو "لیگ آف نیشنز" کے نام سے ایک ادارہ قائم کرڈالا اور محض اس ادارے کے توسط سے تین ماہ کے اندر ہی برطانیہ کے قبضے کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔اگرچہ برطانیہ نے یہ وعدہ بھی کہ وہ فلسطین پر قبضے کے بعد انہیں فلسطین کی سرزمین پر ایک مستقل رہائش گاہ فراہم کرے گا دوسری طرف یہی عالمی برادری ہے جو کشمیر ہو یافلسطین ہر طرف سے اپنی آنکھیں بند کرکے بھی بیٹھی ہے اور مسلمانوں پر دبائو بھی دیا جاتا ہے کہ وہ یہودی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات بھی معمول پر لائیں۔ 15 ستمبر 2020ء کو متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس بات کو تسلیم بھی کرلیا۔ہائے افسوس کہ ہم تو خود بھی متحد نہیں ہیں۔یہاں مجھے ہمیشہ کسان کی کہانی یاد آتی ہے جس کے چار بیٹے تھے اوروہ چاروں ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے ایک دن کسان نے اْنہیں چار لکڑیاں لانے کو کہاسب لے کر آئے تو کہا کہ انہیں اکٹھے باندھ دو اور اسے کاٹو جب ایسا کیا گیا تو لکڑیاں کاٹنا بہت مشکل تھا پھر کسان نے کہا کہ انہیںکھولو اور ایک ایک کرکے کاٹو ایسا کرنے پر تمام لکڑیاں آسانی سے کاٹی گئیں۔آج اسلامی ممالک کی مثال بھی اس کہانی جیسی ہے۔ترکی،مصر،اْردون اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشنPLOتو پہلے ہی اس قانون کو تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔یہ احتجاجی ریلیاں، نعرے اور ٹی وی پروگرام سے آگے عملی طور پر کچھ کرنے کا وقت ہے۔عارضی طور پر جنگ بندی تو ہوچکی ہے لیکن یہ مستقل حل تو ہیں ہے۔ اربابِ اختیار کی توجہ ایک اور معاملہ کی طرف بھی دلانا چاہوں گی کہ مال روڈ پر نہایت بڑے بڑے بورڈز پر جہاں کچھ لوگوں نے اپنی بے شمار تصاویرآویزاں کرکے ساتھ ہی معصوم بچوں کو گولی لگے اور شہید ہوئے تصویر چسپاں کی ہوئی ہے اس Violanceکو بھی روکا جائے کہ یہ مہذب قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔احتجاج اور دکھ کے اظہار کے اور بھی مناسب طریقے موجود ہیں۔