جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا ۔۔!

سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آنکھوں پہ یقین کریں یا کانوں پر؟ ایک طرف معیشت میں بہتری کے آثار کا سن رہے ہیں تو دوسری طرف آئے روز بڑے سے بڑا سکینڈل دیکھنے کو ملتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان سکینڈلز میں ’سو کالڈ‘ کرپٹ اپوزیشن نہیں بلکہ حکمران جماعت کے متعدد مشیر اور وزیر شامل ہیں۔حکومت کے سربراہ عمران خان اب تک ، عوام کو’گھبرانانہیں‘ کا درس دیتے آ رہے ہیں۔حکومت سے باہر چھوٹی بڑی سب جماعتیں ’متحدہ اپوزیشن‘ کے طور پر حکومت کو پہلے دن سے ہی آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ حالانکہ عمران حکومت کی یہ خوش بختی تھی کہ اُسے اپوزیشن ایسی ملی جو کرپشن الزامات کے سبب اپنی اخلاقی ساکھ سے محروم ہے۔ اپوزیشن کی دو نوںبڑی جماعتیں ماضی میںباربار حکومت کے مزے لے چکی ہیں، ماضی میں دونوں ہی ایک دوسر ے پر کرپشن کے الزامات لگاتی رہی ہیں حالات کی ستم ظریقی کہ وقت نے انہیں عمران خان کے خلاف اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیا۔
’دو جمع دو چار‘ کے فارمولے کی طرح ، یہ مسلمہ اصول ہے کہ ’ حکومت کی کمزوریاں، اپوزیشن کی طاقت اور اپوزیشن کی کمزوریاں حکمرانوں کیلئے تقویت کا باعث ہوتی ہیں‘،اپوزیشن کی سبھی جماعتیں اخلاقی انحطاط کی وجہ سے حکومت کیلئے کسی قسم کی مشکلات پیدا کرنے سے قاصرر ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی کمزوریاں اور پے در پے ناکامیاں اپوزیشن کو تقویت دینے کے مترادف ہیں۔انتخابات سے پہلے’الیکٹ ایبل‘ پر بھروسہ کرنے سے، تحریک انصاف کے Committed ارکان میں مایوسی اور بد اعتمادی نے جنم لیا۔ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ انتخابات کاروبار بن چکے ہیں ۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے ایم پی اے، ایم این اے بننے والا اپنے خرچے پورے ہی نہیں کرتا بلکہ آئندہ انتخاب کا خرچہ بھی نکالے کے چکر میں رہتا ہے۔ یہ سلسلہ گذشتہ تیس سال سے جاری ہے، بلکہ دونوں بڑی پارٹیوں کے ٹکٹ بھی کروڑوں میں بکتے رہے۔ماضی میں ترقیاتی کاموں سے لیکرفرنٹ مینوں کے ذریعے اور ’وائٹ کالر کرائم‘ سے کرپشن کے دروازے کھولے جاتے رہے۔ حکومتیں ’لٹو تے پھٹو‘ کے فار مو لے پر چلتی رہیں۔ تمام ادارے اسی لیے تباہ و برباد کیے گئے تا کہ حکمرانوں اور ان کے حلیفوں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی ملے۔ حتیٰ کہ ایک عام ورکر تک لوٹ مار کے اثرات پہنچے۔ گنگا بہتی دیکھ کر ہر کسی نے خوب ہاتھ دھوئے۔ یہ اسی زمانے کا مقولہ ہے کہ’ جو لوٹ مار میں شامل نہیں ، وہ بزدل ہے‘، ورنہ کرپشن کے مواقعے تو سب کیلئے یکساں ہیں۔ اگر صرف آمدن کیمطابق اثاثے چیک کیے جائیں تو ملک کی اکثریت اپنے اثاثوں کو آمدن کیمطابق ثابت کرنے میں ناکام رہے گی۔سفید پوش بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ حکمرانوں سے لیکر ایک عام آدمی نے اپنی بساط کیمطابق کرپشن کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاںکرپشن کے الزام پر حکومتیں ٹوٹتی بلکہ توڑی جاتی رہی ہیں۔حکمرانوں کی کرپشن ہی مارشل لاء کا جواز فراہم کرتی رہی ہیںاور مارشل لاء کی چھتری کے نیچے جو کچھ ہوتا رہا وہ چھتری کے نیچے ہونے کی وجہ سے اکثرکی نظروں سے اوجھل رہا۔ تحریکِ انصاف بظاہر ’احتساب‘ کے نعرے پر جیت کر آئی۔ مگر اسکے اپنے اندر ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہوں نے ماضی میں بہتی گنگا میں ہاتھ رنگے۔نواز شریف اور آصف زرادری آج جن الزامات میں عدالتوں یا نیب کا سامنا کر رہے ہیں ، یہ کیس (حدیبیہ پیپر ملزوغیرہ اور بے نامی؍ فیک اکاؤنٹس) خود انکے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر بنائے گئے ۔ پاناما پیپر لیکس تو اتفاقاً سامنے آیا۔ یہ ماننا پڑیگا کہ عمران خان اپوزیشن میں نہ ہوتا تو یہ آپس میں بندر بانٹ سے اسے کب کا کھا ،پی کر ہضم کر چکے ہوتے۔پاناما پیپر میں سب نے دیکھا کہ حکومت اور اپوزیشن تاریخ میں پہلی بار’ایک پیج‘ پر نظر آئے، سوائے عمران کے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ نظام عدل میں بے شمار نقائص کی وجہ سے ابھی تک نتیجہ خیز کارکردگی نظر نہیں آئی۔ حکومتی پارٹی کا سیکرٹری جنرل نااہل ہوا، وزیر اعلی کا متوقع اُمیدوار نیب کی پیشیاں بھگت چکا، پونے تین سال میں حکومت کو کئی سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا، حکومت کو اس حد تک تو سراہنا بنتا ہے کہ اس نے ان سکینڈلز پر کمشن بٹھائے اور تحقیقاتی رپورٹس کو پبلک بھی کیا، جو کہ اس سے پہلے ممکن نہیں تھا، یہ الگ بات کہ ابھی تک کوئی تحقیقاتی رپورٹ بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔ شوگر سکینڈل میںجہانگیر ترین کیخلاف تادیبی کارروائی سے پہلے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں فارورڈ بلاک کے دباؤ کے آگے حکومت بے بس دکھائی دی۔ بجٹ کی آمد آمد ہے اس مرحلہ پر یہ حکومت کیلئے ’الارمنگ‘ہے، وزیرِ اعظم نے ’فیکٹ فائنڈنگ‘کیلئے جس شخص کو ذمہ داری دی اس کا چیمبر اسی ترین خان کے کیسزدیکھ رہا ہے۔ جبھی ’کلین چٹ‘کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔دوسری طرف ’راولپنڈی رِنگ روڈ سکینڈل‘ کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ اہم وزیر ، مشیر زد میں ہیں۔ اگر کلین چٹ کا رواج پڑ گیا تو ’’ایمانداری کے خود ساختہ مینار‘‘کو زمیں بوس ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔۔۔! 

ای پیپر دی نیشن