اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی صورتحال کا بخوبی علم ہے‘ جنوبی ایشیاء میں امن کا دارومدار پاکستان بھارت تعلقات کی بحالی پر ہے۔ دونوں ممالک کیلئے ضروری ہے کہ تنازعۂ کشمیر کا حل نکالیں۔ اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر گزشتہ روز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی نے فلسطین کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی سے کئی فلسطینیوں کی جانیں گئیں۔ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے فلسطینیوں کے حقوق کیلئے مضبوط موقف اپنایا۔ اس وقت مذاکرات کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی قبضے کو ختم کیا جاسکے۔ انکے بقول مشرق وسطیٰ میں امن تک جنرل اسمبلی چین سے نہیں بیٹھے گی۔ اسی طرح افغانستان میں بھی امن کی بحالی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جموں و کشمیر کی صورتحال کا بخوبی علم ہے اور اس کا بھی ادراک ہے کہ ایک عام پاکستانی کشمیر کے حوالے سے کیا محسوس کرتا ہوگا۔ وہ بھارت اور پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ اس مسئلہ کے پرامن حل کے راستے پر چلیں۔
کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ علاقائی امن و سلامتی کا ہی نہیں‘ نمائندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کی ساکھ اور بقاء کا بھی مسئلہ ہے۔ اس سے پہلے کی نمائندہ عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کی ناکامی کی بھی یہی وجہ تھی کہ اسے چند ممالک نے اپنے مفادات کا اسیر بنالیا تھا اور وہ ریاستوں کے مابین پرامن بقائے باہمی کا آفاقی اصول لاگو کرانے اور علاقائی و عالمی امن و استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی تھی چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ جو لیگ آف دی نیشنز کی ناکامی کا ہی منطقی نتیجہ تھی‘ ایک مربوط اور مؤثر نمائندہ عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اسی ضرورت کے تحت 24؍ اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا جس کے چارٹر میں جو سان فرانسسکو میں منعقدہ اسکے پہلے اجلاس میں مرتب کیا گیا تھا‘ ریاستوں کے مابین پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کو بنیاد بنایا گیا اور طے کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اپنے باہمی تنازعات طے کرنے کیلئے ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار اٹھانے اور جنگ و جدل سے گریز کرینگے‘ دوطرفہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرینگے اور ایک دوسرے کی آزادی‘ خودمختاری اور سالمیت کو مقدم رکھیں گے۔ اسی طرح وہ علاقائی اور عالمی امن کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
اس تناظر میں اگر اقوام متحدہ کے اب تک کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اسکی پوزیشن لیگ آف دی نیشنز سے مختلف نظر نہیں آتی کیونکہ اسے اسکی رکن چند بڑی طاقتوں نے اپنے مقاصد کیلئے موم کی ناک بنا رکھا ہے جو اسکے فیصلوں اور قراردادوں کو پرکاہ جتنی حیثیت بھی نہیں دیتیں۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کو ویٹو پاور حاصل ہے چنانچہ وہ اپنے مفادات کیخلاف سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرکے اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آنے دیتے۔ اس کا چھوٹے ممالک پر تو سکہ چلتا ہے جنہیں بڑی طاقتوں کی خوشنودی کی خاطر اقتصادی پابندیوں کی زد میں لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر بڑی طاقتوں کیخلاف ایسا فیصلہ کرنے کیلئے اسکے پَر جلتے ہیں۔
کشمیر اور فلسطین کے دو دیرینہ ایشوز اقوام متحدہ کے پیش نظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل 1948ء سے اب تک کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے درجن بھر قراردادیں منظور کرچکی ہے مگر وہ بھارت سے اب تک ان قراردادوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ اسکے برعکس بھارت نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان قراردادوں کو روندتے ہوئے اپنے غیرقانونی زیرتسلط کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ظاہر کیا اور اس پر پاکستان کی آواز دبانے کیلئے اس پر تین جنگیں مسلط کیں اور اسے دولخت کرنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گیا جبکہ نہتے اور بے گناہ کشمیریوں پر بھارتی فوجوں کے مظالم کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ طوعاً و کرہاً بھارتی آئین میں اسکی دفعات 370‘ اور 35 اے کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی مگر ساتھ ہی ساتھ مقبوضہ وادی کی ہیئت تبدیل کرنے کی سازشیں بھی جاری رکھی گئیں۔ بالآخر 5؍ اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنادیا۔ اس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس منعقد ہوئے اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورموں پر بھی مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں مگر بھارت ٹس سے مس نہ ہوا اور آج کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا سلسلہ مزید دراز ہو چکا ہے چنانچہ اقوام متحدہ دیرینہ مسئلہ کشمیر اپنی قراردادوں کی روشنی میں حل کرانے میں قطعی ناکام رہی ہے۔
یہی معاملہ دیرینہ مسئلہ فلسطین کا ہے۔ اقوام متحدہ کے فورم پر فلسطینیوں کا اپنی ریاست کا حق بھی مسلمہ ہے مگر چونکہ امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے اس لئے فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونیوں کے تسلط سے آزاد کرانے کیلئے اقوام متحدہ کا فورم قطعاً مؤثر ثابت نہیں ہو سکا۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرکے اسے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کا نام دیا۔ اس طرح انہوں نے فلسطین کے مقابل عملاً اسرائیل کو تسلیم کیا۔ یواین جنرل اسمبلی نے ٹرمپ کے اس فیصلے کیخلاف واضح اکثریت سے قرارداد منظور کی مگر ٹرمپ نے اس قرارداد کو بھی پائوں تلے روند دیا۔ اس طرح اقوام متحدہ فلسطینیوں کو آزادی دلانے کے معاملہ میں بھی قطعی غیرمؤثر رہی جس کی بے عملی کا نتیجہ تین ہفتے قبل اسرائیلی فوجوں کی مسجد اقصیٰ اور غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر یلغار کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس خونریزی اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا مگر امریکہ نے اسرائیلی کارروائی کیخلاف سلامتی کونسل کی قرارداد پر تین بار ویٹو کرکے اس پر عملدرآمد رکوا دیا۔
بے شک یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس اور جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوکرز کشمیر و فلسطین کے مسائل کے حل کیلئے فکرمندی رکھتے ہیں جس کا گزشتہ روز بوزکر نے اسلام آباد میں اظہار بھی کیا ہے‘ مگر عملاً یہ نمائندہ عالمی ادارہ قطعی غیرمؤثر ہے جو اسکے رکن ممالک کیلئے بھی بہرصورت لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر اس ادارے کے حوالے سے یہ صورتحال برقرار رہی تو اس کا بھی لیگ آف دی نیشنز والے انجام کو پہنچنا فطری امر ہوگا۔
جنرل اسمبلی کے صدر کی کشمیر و فلسطین کے مسائل کے حل کیلئے فکرمندی
May 29, 2021