Imran Khan ''  A Dialogue with Giant''   

میں کرایہ کیوں دوں میں اسی کرائے کی رقم کو اپنے گھر کی قسطوں کی صورت میں کیوں نہ ادا کروں۔ ہمارے بنک دیگر ملکوں کی طرح بنک کمزور لوگوں کو قرضے نہیں دیتے ۔ حتی کہ بنک والوں کو یہ تربیت ہی نہیں دی گئی کہ عام آدمی کیلئے بینکنگ کیسے کرنی ہے۔ میں ہر پاکستانی کی چھت پر اپنے گھر کا سایہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ہم گھروں کو فنانس کرنے کیلئے آسان اقساط پر قرضے دینے والی کمپنیاں بنانے جارہے ہیں ۔ لیہ کے سپورٹس کمپلیکس میںوزیراعظم پاکستان عمران خان جلسہ سے خطاب کرنے سے قبل جنوبی پنجاب کے چند سینئر اخبار نویسوں اور کالم نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کررہے تھے تو انکے بائیں جانب بیٹھا یہ کالم نگار مسلسل ان کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔ جس پر دُکھ اور کرب کے ساتھ ساتھ بھرپور اُمیدنظر آئی۔زندگی کے 30 سال جلسوں کو کور کرتے ، سیاستدانوں کے چہروں کی مکاریاں پڑھتے ، بند کمروں میں کچھ ، اور عوام میں جاکر گرگٹ کی طرح رنگت بدلتے ہوئے بالکل اُلٹ باتیں کرتے ۔ ایک طویل عرصہ کے بعد 26 مئی بروز بدھ سہ پہرسخت ترین حالات اور مشکلات کے باوجود میں نے عمران خان کے چہرے پر اُمید اور یقیں محکم کی وہ جھلک دیکھی جو1943 ء قائد اعظم محمد علی جناح کا انٹرویو کرنیوالے ایک برطانوی صحاٖفی ’’ بیورلے نکلسن ‘‘ نے انکے چہرے پر دیکھی تھی اور پھر اس انٹرویوپر مشتمل اپنے آرٹیکل کے چند جملے کچھ یوں لکھے ۔
A Dialogue with Giant''   '' ’’ایک جن کے ساتھ مکالمہ ‘‘ اور متن میں کیا ہوگا یہ میرے محترم پڑھنے والے چاول کے چند دانے چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔کیونکہ اس نے متعدد سوالوں میں سے قائد اعظم کو ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ ’’آپ ایک کمزور اور وسائل کی شدید کمی کا شکار اور مسائل میںاُلجھے ملک کا قیام کیوں چاہتے ہیں؟‘‘ تو قائد اعظم نے اسے یہ کہہ کرلاجواب کردیا ۔ ’’کہ آپ کو کسی دوسری قوم کے ماتحت طاقتور برطانیہ قبول ہوگا یا آزاد اور خود مختار کمزور برطانیہ۔‘‘ امید اور یقین محکم ہی کی برکت نے بیمار اور لاغر قائد اعظم کی تقدیر میں دنیا کے نقشے پر سب سے بڑے اسلامی ملک کا ظہور لکھ رکھا تھا۔
کم و بیش اسی قسم کا یقین اور مصمم ارادہ میں نے 40 منٹ کی ملاقات میں عمران خان کے چہرے پر بھی دیکھا۔انہوں نے اخبار نویسوں سے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ ’’ دنیا میں کامیاب ماڈل ایک ہی ہے جو نبی پاکؐ کا ماڈل ہے اور اسی کو چین نے اپنایا خواہ اسے کوئی بھی نام دیدیا گیا ہو۔ میں نچلے طبقے کو اوپر اُٹھانا چاہتا ہوں اور اسی سوچ کے تحت میں نے پنجاب کے چیف ایگزیکٹو کیلئے عثمان بزدار کا انتخاب کیااور یہی سوچ آج مجھے لیہ لیکر آئی ہے ۔ ہم نے پسماندہ علاقوں کو پرموٹ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں عدالت سے یہ قانون لانے میں دو سال لگ گئے کہ پاکستان میں گھر بنانے کیلئے کم ترین شرح اور آسان ترین اقساط پر قرضے دئیے جائیں اور اسی کے تحت 5 مرلے کے گھر کیلئے ہم 3 فیصد شرح سود پر قرضہ سکیم شروع کرنے جارہے ہیں ۔پہلے ایک لاکھ گھروں کو 3 لاکھ روپیہ بھی سبسڈی کے طور پر حکومت فراہم کررہی ہے۔ وہاں بیٹھے ہوئے مجھے مشرف دور میں پرائیوٹائز ہونے والی ایک منافع بخش کھاد فیکٹری کی کہانی یاد آگئی جو 14 ارب میںفروخت ہوئی تھی اور گھروں کی تعمیر پر اس وقت 14 فیصد کے قریب سود لینے والے پاکستانی بنکوں نے مذکورہ کھاد فیکٹری کی 100 فیصد فنانسنگ3 فیصد سالانہ شرح سود پر کی تھی اورجس سال یہ فیکٹری نیلام ہوئی اسی سال اسکی آمدن تقریباً سوا دو ارب روپے تھی۔ سب سے تکلیف دہ امر یہ تھا کہ حکومت پاکستان کو 14 ارب روپے میں ایک منافع بخش ادارہ بیچ کر صرف ڈھائی ارب روپیہ اس فیکٹری کی فروخت کے عوض ملا تھا جس کا اس ایک سال کا منافع سوا دوارب روپیہ تھا۔ چونکہ یہ فیکٹری ایک خلیجی ملک کے اشتراک سے حکومت پاکستان نے غالباً بھٹو دور میں بنائی تھی اور اسکے فروخت ہونے پر 49 فیصد شیئرز کے حساب سے تقریباً 7 ارب روپیہ مذکورہ خلیجی ملک کو دے دیا گیا تھا اور باقی 7 ارب سے گولڈ ن شیک ہینڈ ، واجبات و دیگر مدات کے پیسے نکال کر حکومت پاکستان کو شاید ڈھائی ارب روپیہ بچا تھا اور جس سال یہ فیکٹری نیلام ہوئی تھی ان سالوں میں 12مربع اراضی پر شہر سے ملحقہ اس فیکٹری کی زمین کی مالیت ہی شاید  12ارب کے قریب تھی گویا ساری فیکٹری کباڑ میں چلی گئی۔
مذکورہ فیکٹری کے مالک نے 2010ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے کو سیلابی امداد کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے کا چیک دیا تھا اور وہ چیک کس کھاتے میں گیا تھا یہ کہانی پھر سہی ۔ فی الحال واپس عمران خان سے ملاقات کی طرف چلتے ہیں۔دوران گفتگو سنیئر جرنلسٹس ظہور دھریجہ نے جنوبی پنجاب کا نوحہ پڑھا اور شکیل انجم نے کپاس کی بدحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے پنجاب میں فصلوں کے حوالے سے زوننگ کرنے کی بھرپور وکالت کی تو وزیراعظم اس معاملے پر خاصی آگاہی رکھتے ہوئے پائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی زرعی پالیسی سالہا سال سے شوگر مافیا نے ہائی جیک کررکھی ہے۔دنیا میں کپاس پیدا کرنیوالا چوتھا ملک پاکستان آج کپاس امپورٹ کررہا ہے اور یہی شوگر مافیا عوام کو دنیا سے مہنگی چینی دے رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کاٹن پر سائنٹیفک اندازمیں منصوبہ بندی ہورہی ہے اور ایک بھرپور زرعی پلان حتمی تیاری کے مراحل میں ہے ۔ حکومتی پالیسی کی وجہ سے گندم کی فصل کی مد میں رواں سال کاشتکاروں کو 1100 ارب روپیہ اضافی ملا ہے۔ہم نے چاول، اور گندم کی فصل پر کسان دوست فیصلے کیے ہیں اور اب پوری توجہ کپاس پر مرکوز کردی ہے ۔  (جاری) 

ای پیپر دی نیشن