آرٹس کونسل کے حسینہ معین ہال منیزہ ہاشمی کی کتاب کی رونمائی

کراچی(کلچرل رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں معروف شاعرفیض احمدفیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی کی کتاب "Conversations with my father"کی رونمائی حسینہ معین ہال میں کی گئی ،تقریب میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی، سلیمہ ہاشمی، زہرا نگاہ، مہتاب اکبر راشدی، غازی صلاح الدین، ارشد محمود کے علاوہ فیض صاحب کے مداحوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ نظامت کے فرائض سمیرا خلیل نے انجام دیے، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ فیض احمد فیض کی یادیں آج بھی آرٹس کونسل کی درودیوار میں موجود ہیں، اس کی بنیادوں میں ان کا بہت بڑا کردار ہے، وہ تین سال تک آرٹس کونسل کے وائس پریذیڈنٹ بھی رہے، انہوں نے کہاکہ فیض صاحب نے پاکستان میں کلچرکے بڑے ادارے بنانے میں اہم کردار ادا کیاچاہے وہ پی این سی اسلام آباد ہو یا لاہور آرٹس کونسل ، پاکستان میں سندھی، بلوچی، پختون، پنجابی، سرائیکی اور دیگر زبانوں کے لوگ فیض احمد فیض کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں، انہوں نے کہاکہ فیض صاحب کے ساتھ میرا محبت کا رشتہ تھا ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، آج فیض احمد فیض آرٹس کونسل کو دیکھ کر خوش ہورہے ہوںگے کہ یہاں ان کی بیٹیاں اور چاہنے والے موجود ہیں،زہرا نگاہ نے کہاکہ منیزہ کو ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ کتاب میں مبالغہ آرائی کہیں نہ ہو ،صاف گوئی کا استعمال کرنا جس پر کافی حد تک عمل بھی کیا، خطوط ادب کی اپنی حیثیت ہے، ہمارے خطوط کا بابائے آدم تو غالب ہے، سب سے بڑے خطوط فیض صاحب کے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف شاعری ہی نہیں نثر کے بھی بہت اونچے مقام پر تھے، منیزہ کے خطوط بہت اہمیت کے حامل ہیں، مصنفہ منیزہ ہاشمی نے کہاکہ میرے بچوں نے کہا کہ خط کے ساتھ ان جواب بھی لکھیں، کتاب میں دل کھول کرلکھا ہے، کتاب ناول نہیں بلکہ کچھ یاداشتیں ہیں، افسوس یہ ہے کہ والد سے بہت سی باتیں نہیں پوچھ سکی،فیض احمدفیض فلسطین کے بارے میں بہت سوچتے تھے، کتاب کیلئے والدکے دوستوں سے ملاقاتیں کیں دوستوں نے کہاکہ فیض کوسب جانتے ہیں فیض کی الیس کوکوِئی نہیں جانتا، فیض احمدفیض کاحس مزح بھی بہت عمدہ تھا، ضیا دورمیں بہت سی تکلیفیں جھیلیں جس پروالد سے شکوہ کیا، ضیا دورمیں والدبیروت میں تھے، والدنے کہاتم سے خدمت نہیں صرف پیارچاہیے، غازی صلاح الدین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ باپ اوربیٹی کارشتہ بہت مضبوط ہوتاہے، منیزہ ہاشمی کوایک دکھ یہ ہے کہ وہ فیض احمد فیض کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارسکیں، منیزہ ہاشمی نے چالیس سال بعد والد کے خطوط کاجواب دیاہے، مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ میں اس کتاب کو بیٹی کی نظر سے دیکھ رہی ہوں جس طرح اپنے والد سے گفتگو کی وہ بیٹیاں ہی سمجھ سکتی ہیں، کتاب پڑھنے کے بعد میں اس کے سحر سے اب تک نہیں نکل سکی، انہوں نے کہاکہ زندگی کا جو سبق فیض صاحب نے دیا وہ آج بھی چل رہا ہے، منیزہ اپنے والد کے دوست کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے فلسطین گئی جو بہت بڑی بات ہے،پچاالیس پچاس سال بعد جب یہ لمحے یاد کرتے ہیں ہیں تو دل بھر سا جاتا ہے جیساکہ منیزہ کی گفتگو میں بھی نظر آیا، سلیمہ ہاشمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ منیزہ کی کتاب یادوں کی کڑی ہے، جب کتاب کے صفحے پلٹنے شروع کیے تو ماضی کے نقشے ابھر ابھر کر سامنے آئے پانچ سال کی عمر تک میں اردو میں بات کرتی تھی، انہوں نے کہاکہ فیض کی بیٹیاں شاعر تو نہیں تھوڑا بہت حق ضرور ادا کرتی ہیں اور ہمیشہ کرتی رہیں گی، معروف ہدایت کارو داستاں گو فواد خان نے فیض احمد فیض کے خطوط اور شاعری حاضرین کے گوش گزار کی۔
 منیزہ ہاشمی

ای پیپر دی نیشن