جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے ادب سے علم سمجھ میں آتا ھے، علم سے عمل صحیح ہوتا ھے، عمل سے حکمت ملتی ھے، حکمت سے زہد قائم ہوتا ھے، زہد سے دنیا متروک ہوتی ھے اور دنیا کے ترک سے آخرت کی رغبت حاصل ہوتی ھے اور آخرت کی رغبت حاصل ہونے سے اللہ کے نزدیک رتبہ حاصل ہوتا ھے- جب بیت اللہ کا ادب واجب ہوا تو جس مسجد حرام میں بیت اللہ واقع ھے تو وہ مسجد بھی واجب التعظیم بن گئی کہ اگر ایک نماز یہاں پڑھی جائے تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ھے یہ اس نسبت کی برکت ھے- مسجد حرام جس محل میں واقع ھے وہ مکہ مکرمہ ھے تو مکہ مکرمہ بھی واجب التعظیم ہوگیا اور اس کا ادب ضروری ہوگیا اور مکہ مکرمہ واقع حجاز میں ھے تو حجاز اور سارے عرب کا ادب واجب ہوگیا- حدیث میں ھے کہ عرب سے محبت کرنا ایمان ھے اور بغض رکھنا نفاق کی علامت ھے- حدیث میں ھے کہ جو شخص سفید داڑھی والا ہاتھ پھیلا کر دعا مانگتا ھے حق تعالی فرماتے ہیں مجھے حیاء آتی ھے کہ اسے خالی واپس کردوں تو یہ اس کی داڑھی کا عنداللہ وقار ھے جو محض عمر کی بڑائی کی وجہ سے اسے حاصل ہوگیا ھے اگر اس بڑائی کے تحت اور بڑائیاں بھی جمع ہوجائیں علم اخلاق تو ادب بڑھ جائے گا لیکن اگر کوئی ہنر نہ ہو تو خلقی کمال پر بھی ادب کی تلقین کی گئی ھے- حضرت مولانا محمد قاسم ؒ کے بارے میں سنا ھے کہ ان کی عادات میں ادب کا بہت لحاظ ہوتا ۔ سادات کا کوئی بچہ بھی آجاتا تو سرہانہ چھوڑ کر پائنتی کی طرف بیٹھ جاتے اور فرماتے کہ دنیا مخدوم زادوں کی عزت کرتی ھے یہ سارے عالم کے مخدوم زادے ہیں سارے عالم پر انکی تعظیم واجب ھے حالانکہ بچہ چھوٹا ھے مگر فرماتے ہیں یہ مخدوم زادہ ھے یہ اولاد رسولؐ ھے- حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی جو مشائخ چشتیہ میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں انکے پوتے شاہ ابو سعید صاحب جو سلسلہ چشتیہ کے مشائخ میں سے ہیں انکا ابتدائی زمانہ بہت آزادی کا تھا نہ نماز نہ روزے کی پابندی لباس کے حد درجہ شوقین ہر وقت مکلف کپڑے بس اسی میں لگے رہتے نہ علم سیکھنے کی طرف توجہ نہ اعمال کی اصلاح کی طرف دھیان جوانی کا زمانہ تھا وہ ایک دن گنگوہ میں کسی گلی میں جارھے تھے خاکروبہ نے ٹوکرہ کباڑ کا کہیں پھینکا اور سارہ گرد انکے کپڑوں کو لگ گیا تو غضبناک ہوگئے اور کہا تجھے شرم نہی آتی یہ بوڑھی تھی اور اس نے شیخ عبدالقدوس کا زمانہ پایہ تھا تو اس نے تن کر کہا کہ کس برتے پر اکڑتا ھے؟ دادا کی کمائی میراث جو آج اتنے فخر سے بولتا ھے ؟ بس وہ دن تھا اسی وقت واپس ہوئے اور گھر میں آکر والدہ سے کہا کہ اب میں گنگوہ اس وقت تک واپس نہی آوّں گا جب تک دادا کی میراث نہ سنبھال لوں اور پوچھا کہ اس وقت حضرت شیخ کے خلفاء میں سے کون کون ہیں معلوم ہوا کہ اجلہ خلفاء میں سے شیخ نظام الدین بلخی ؒ ہیں انہوں نے خلافت لے کر بلخ کا سفر کیا تو بتایا گیا بلخ میں بڑی خانکاہ ھے۔ لاکھوں کی اصلاح اور افادہ ہورہا ھے تو شیخ نظام الدین کو اطلاع دی کہ میں آرہا ہوں مہینہ دو مہینہ قطع مسافت کے بعد کہیں جاکر پہنچے، اگرچہ صاحبزادہ جاہل ہیں نہ علم نہ ہنر اور شیخ وقت کے ہزاروں متوسل ہزاروں مرید اور ہزاروں کو علم اور دین کا فائدہ پہنچ رھا
ھے مگر اس نسبت کے ادب کی وجہ سے کئی میل آگے جاکر استقبال کیا اور جب شیخ نکلے تو تمام بلخ امرائ بلخ حتی کہ شاہ بلخ بھی ساتھ نکلے دور سے دیکھا کہ صاحبزادے گھوڑے پر آرھے ہیں تو حضرت نظام الدین آگے بڑھے قدموں پر ہاتھ رکھا، صاحبزادہ گھوڑے سے اترنے لگے تو فرمایا نہی آپ نہ اتریں اوپر رہیں اب اس شان سے صاحبزادے چلے آرھے ہیں کہ گھوڑے پر سوار ہیں اور قدموں پر شیخ نے ہاتھ رکھا ہوا ھے ۔۔ اس شان سے بلخ آئے مہمان داری بڑے اعلی پیمانے پر ہوئی تمام علماء مشائخ اور امراء کو صاحبزادے کے احترام میں دعوتیں دیں۔ جب تین دن گزر گئے اور شیخ کا یہ عالم ھے کہ دو زانوں بیٹھے ہیں صاحبزادے کو مسند پر بٹھا رکھا ھے پھر پوچھا صاحبزادے اتنا لمبا چوڑا سفر کیسے کیا ؟ کہاں ہندوستان کہاں بلخ کیا ضرورت پیش آئی ؟ صاحبزادے نے کہا دادا کی میراث لینے آیا ہوں جو آپ لے کر آئے ہیں اور یہ وہ نسبت اور تعلق مع اللہ کی میراث ھے۔فرمایا یہ غرض ھے کہا جی ہاں فرمایا کہ وہاں جوتیوں میں جاکر بیٹھ جاوّ اور خود جاکر مسند پر بیٹھ گئے اب نہ وہ ادب نہ وہ تعظیم اور بیعت کرکے تزکیہ نفس کے کچھ اعمال بتائے خدمت یہ سپرد کی ۔ سال بھر اسی طرح گزر گیا کوئی پرسان حال نہی یا تو شاہ بلخ رکاب تھامے آئے تھے یا آج صاحبزادے کو کوئی پوچھنے والا نہی ایک برس پورا ہونے کے بعد شیخ نے امتحان لینا چاہا کہ کس حد تک اصلاح ہوئی کبر غرور رفع ہوا یا نہیں۔ تواضع الہیت پیدا ہوئی یا نہیں خوہشات ختم ہوئی یا نہیں تو حکم دیا کوڑا کباڑ لاکر صاحبزادے کے قریب ڈال دو اور تھوڑا سا صاحب زادے کے اوپر بھی ڈال دو اور جو کہے ہمیں آکر بتا دینا خادمہ نے جاکر ایسا ہی کیا تو آنکھیں لال پیلی کرکے کہا بیحیاء نہ ہو گنگوہ ہوتا تو تجھے بتلاتا خاکروبہ نے آکر شیخ سے عرض کی وراثت نہی ملی ابھی خواہشات کافی موجود ھے اگلے دن پھر حکم ہوا جب نمازی نماز پڑھ کر نکلیں تو جوتے سامنے رکھو انکی حفاظت بھی کرتے رہو اب اس خدمت پر لگ گئے جب ایک برس اور بیت گیا تو خاکروبہ کو حکم دیا کہ سارا کوڑا صاحبزادے پر پھینک دو اس نے سارا کوڑا کرکٹ ڈال دیا تو صاحبزادے نے کہا ارے بی کیوں تو نے اس کباڑ کو میرے اوپر ڈال دیا یہ مجھ سے افضل ھے تو نے اس کباڑ کو بھی عیب لگایا یہ کباڑ بھی میرے اوپر گرنے سے ناپاک ہوگیا میرے اندر تو کوئی خوبی نہی خاکروبہ نے جاکر شیخ کو بتلایا اب دادا کی میراث مل چکی ھے اگلے دن شیخ نے حکم دیا ہم شکار پر جائیں گے صاحبزادے تم بھی ساتھ چلو شیخ خود گھوڑے پر سوار ہوگئے اور حکم دیا تم رکاب تھام لو جب وہ آئے تھے تو شیخ نے رکاب تھامی تھی اور اب یہ حالت کہ گرتے پڑتے شیخ کے ساتھ دوڑتے جارھے تھے پیروں میں زخم آئے لہو لہان ہوگئے مگر کیا مجال کہ رکاب سے الگ ہوجائیں یہ ہوسکتا ھے شیخ حکم دیں اور اطاعت نہ کی جائے اسی شان سے سارا دن بسر کیا شام کو واپسی ہوئی- شیخ نے حکم دیا نہالو اور کپڑے بدلو صاحبزادے نے نہاکر کپڑے بدل لئے اسکے بعد مجمع کیا اور صاحبزادے کو کھڑا کیا اور بھرے مجمع کے سامنے جوتا ہاتھ میں دیا اور فرمایا یہ غلام حاضر ھے سر حاضر ھے یہ جوتا ھے میں اسی طرح خانہ زاد غلام ہوں ۔ دادا کی میراث مل نہی سکتی تھی اگر یہ محنت اور ریاضت نہ ہوتی نفس کا کبر رفع نہ ہوتا اب تمہیں دادا کی میراث مبارک ہو خلافت اور پگڑی سر کے اوپر باندھی وہ گویا بیادبی نہی بلکہ مجاھدہ تھا اس کے بغیر اصلاح نہی ہوسکتی تھی اور ریاضت اور مجاھدے اسی لئے ہوتے ہیں) ختم شد )
ادب پہلا قرینہ ھے محبت کے قرینوں میں ( 2)
May 29, 2022