سرد جنگ کے بعد دنیا جیو سٹرٹیجک سے جیو اکنامک میں بدل گئی ، اسی وجہ سے امن برقرار رکھنے اور جنگ کرنے کے اصول بھی بدل گئے ہیں۔ جیو اکنامک ہونے کی وجہ سے ہی سمندروں کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جو تجارت کے لیے اب بھی سب سے موثر اور سہل ذریعہ آمدو رفت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان بھی خوش قسمت ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے پاس 1000 کلو میٹر طویل کوسٹ لائن، 240000 طویل اکنامک زون ہیں جن میں حال ہی میں 50000 سکوئر کلو میٹر حدود کا بھی اضافہ ہوا ہے جو پاک بحریہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر عالمی اداروں کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں امن مشقیں اور دوست ممالک کے ساتھ ون آن ون مشقوں کی ٹریننگ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان جو بحیرہ عرب کے ساتھ واقع ہے اب 'بیلٹ روڈ منصوبے' کے مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ مزید اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک کو مکمل کرنے کی خاطر پوری قوم یک زبان اور یک جان اسی لیے ہے کیونکہ گوادر پورٹ کے آپریشنل کے بعد پاکستان چین کے لیے سینٹرل ایشیاء اور مشرق وسطی ممالک کے لیے گیٹ وے کی صورت اختیار کر جائے گا۔ اس سے پاکستان کو تجارتی لحاظ سے بھی منافع ہو گا۔ پاکستان کئی ممالک سے تجارت کو نئی بلندیوں تک لیجانے میں کامیاب ہو جائے گا جس سے اس کی معیثت کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔ اس سب میں پاک بحریہ کی زمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جو گوادر پورٹ اور بعد ازاں مستقبل کی تصویر کشی میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بحری قیادت نے دوست ممالک سے تعلقات کو نئی جہت بخشنے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے سوچ میں جدت لانے کا فیصلہ کیا۔ پی این ایس بدرکارووٹ اسی سلسلے کی کڑی ہے جو پاک۔ترک بردرانہ تعلقات کو توانائی فراہم کر رہا ہے۔ پی این ایس بدر جس کو میلجم تھری کا نام بھی دیا گیا ہے ترکی کی دفاعی صلاحیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے جس کی دفاعی کمپنیاں دنیا کی 100 بھترین کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔
پی این میلجم کے لیے پاک ترک معاہدہ 2018 میں کیا گیا تھا جس کے تحت دونوں ممالک نے مشترکہ طور 4 کارووٹ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں سے 2 کو استنبول جبکہ 2 کو کراچی میں تیار کیا جانا تھا۔ لہذا پہلے کارووٹ پی این ایس بابر کو 2020 میں پاک بحریہ کے حوالے کیا گیا جو آج بھی پیٹرولنگ اور دیگر امن منصو بوں کے لیے مصروف عمل ہے۔ آج وہ موقع آگیا ہے جب پی این میلجم تھری پاک بحری فلیٹ میں شمولیت اختیار کر رہا ہے جو کہ اب تک بحری فلیٹ کا سب سے طاقت ور کارووٹ ہو گا۔ اس میں فضاء میں د شمن کو تباہ کرنے کے لیے جدید ترین ہیلی کاپٹر اور UAV لیجانے کی مکمل صلاحیت ہے جو اس کے کئی ٹن وزنی ہونے کی جانب بھی اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ صرف ایک کارووٹ کی تیاری ہی نہیں بلکہ اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اور ترکی میری ٹائم سیکیورٹی کے لیے دفاعی تعاون بڑھا ر ہے ہیں۔ یہ تعاون ٹیکنالوجی کی منتقلی، کراچی شپ یارڈ کی اپ گریڈیشن میں تعاون اور کثیر الجہتی مقاصد کے لیے'جناح فریگریٹ' کی تعمیر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تعاون اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان اور ترکی دفاع کے ساتھ ساتھ سمندری تجارت کو بھی فوقیت دے رہے ہیں جو موجودہ دنیا میں کسی بھی ریاست کے لییمعاشی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ ان تمام عوامل میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دفاعی تعاون کو مزید بڑھایا جائے اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی جائے۔ پاک ترک تعاون نہ صرف خطے بلکہ عالمی طور پر بھی پاکستان کی انسداد میری ٹائم دہشت گردی، انسداد منشیات اور امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کا حقیقی ثبوت ہے۔