سرکاری مراعات کے باوجود کاٹن سیس کے اربوں روپے واجب الادا

فرحان انجم ملغانی
پاکستان کی معیشت میں کپاس کی اہمیت وکردار کو ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔جب تک ملک میں کپاس کی ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر کام ہوتا رہا کپاس کا کاشتکار بھی خوشحال رہا،انڈسٹری کا پہیہ بھی رواں دواں رہا اور پاکستان بھی پھلتا پھولتا رہا مگر بدقسمتی سے آج پاکستان جس بدترین معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اس کے بہت سے عوامل ہیں جن میں میں کپاس کی کم ترین پیداوار  سر فہرست ہے۔ اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل اندسٹری کی کل ضررویات 15ملین کپاس کی گانٹھوں سے زائد ہیں لیکن گزشتہ سال پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم ترین پیداوار5ملین گانٹھ حاصل ہوئیں۔ یوں ہمیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کم سے کم5تا6ملین کپاس کی گانٹھیں درآمد کرنا ہوں گی اور اس کے لئے ہمیں اربوں ڈالرز خرچ کرنا پڑیں گے ۔
پاکستان میں کپاس کا سب سے بڑا تحقیقی ادارہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی) پی سی سی سی(ہے جس کے چاروں صوبوں میں کپاس کی تحقیق وترقی کے انسٹیٹیوٹ اور ریسرچ اسٹیشنزموجود ہیں۔یہ وہی ادارہ ہے جس کی بنیاد قائد اعظم نے1948میں رکھی تھی مگر بدقسمتی سے آج اسی سینٹرل کاٹن کمیٹی کے1100ملازمین گزشتہ11ماہ سے تنخواہوں اور پیشنز سے محروم ہیں۔ اس ادارے کا ذریعہ آمدن کاٹن سیس ہے جو 50روپے فی کپاس کی فی گانٹھ کے حساب سے ٹیکسٹائل انڈسٹری قانوناً دینے کی پابند ہے 50روپے فی گانٹھ کاٹن سیس کا ریٹ سال2012میں مقرر کیا گیا تھا جسے آج کے حساب سے500روپے فی گانٹھ ہونا چاہئیے تھامگر افسوس ٹیکسٹائل انڈسٹری نے سنٹرل کاٹن کمیٹی کو سال2016سے50روپے فی گانٹھ کاٹن سیس بھی دینا بند کردیا ہے جس کی وجہ سے کپاس کی تحقیق وترقی کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری پی سی سی سی کو کاٹن سیس باقاعدگی سے ادا کرتی رہی حالات معمول پر رہے۔ سنٹرل کاٹن کمیٹی کی بدولت ہی ہم نے پاکستان کی تاریخ میں تین بار کپاس کی بمپر فصل حاصل کی۔ آخری مرتبہ2014-15میں ہم نے کپاس کی14.4ملین گانٹھیں حاصل کیں۔ آج ہم ڈیڑھ کروڑ کپاس کی گانٹھ سے صرف50لاکھ گانٹھ تک آ گئے ہیں۔ دوسری جانب آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن سنٹرل کاٹن کمیٹی کی4ارب روپے کی نادہندہ ہے۔
 پی سی سی سی کے پاس آج بھی پاکستان بھر میں سب سے بڑا ریسرچ کا میکانزم موجود ہے۔ جسے فی الفور اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔دنیا کے41ممالک سے اکٹھا کیا گیاانتہائی قیمتی جرم پلازم جس کی تعداد6243ہے ایسا جین پول پاکستان میں کسی ادارے کے پاس نہیں ہے۔ پی سی سی سی کے پاس کسی بھی ادارہ کے مقابلہ میں سب سے زیادہ تجربہ کار پی ایچ ڈی زرعی سائنسدان ہیں۔ ہم پی سی سی سی کے انتظامی سٹرکچر میں کچھ تبدیلیاں لا کر اور ریسرچ فنڈنگ کے ذریعے اسے دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرکے پاکستان میں عالمی معیار کا شاندار کپاس کا تحقیقی ادارہ بنا سکتے ہیں۔کپاس کی اعلیٰ پیداوار کی حامل اقسام کی تیاری، کپاس کے کیڑے مکوڑوں خاص کر گلابی سنڈی اور سفید مکھی،کپاس کی بیماریوں خاص لیف کرل وائرس، آئی پی ایم پروگرام، جدید زرعی مشینری کے استعمال، کسانوں کے لئے کم پیداواری لاگت کی ٹیکنالوجی کا استعمال، کپاس کے میدان میں ایسا تحقیقی کام اورپیداواری ٹیکنالوجی جس کے استعمال سے کپاس کی فصل میں کھاد،پانی اور زرعی زہروں کی کم سے کم ضرورت ہوتاکہ ہماری فی ایکڑ پیداوار بڑھ سکے۔ کپاس کا ایسا بیج بنانا ہوگا جو کم پانی،زیادہ درجہ حرارت،بارشوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں بہترین کارکردگی کا حامل ہو۔پی سی سی سی کی موجودہ کپاس کی منظور شدہ اقسام کا پیداواری پوٹینشل40من سے زائد ہے جبکہ ہماری قومی سطح پر اوسط پیداوار15تا20من فی ایکڑ ہے جسے مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
پی سی سی سی نے اب تک کل57اقسام کپاس کی کاشت کے لئے دی ہیں جن کے ریشے کی لمبائی کم سے کم28ملی میٹر ہے جبکہ پی سی سی سی34.6ملی میٹر ریشے کی لمبائی تک کی کپاس پیدا کر چکا ہے۔ اس وقت ہمارا پیداواری پوٹینشل18تا20ملین کپاس کی گانٹھیں ہیں۔ یہ اس وقت ہوگا جب ریسرچ پر سرمایہ کاری کی جائے گی۔ دنیا بھر میں جتنے بھی کپاس کی زیادہ پیداوار لینے والے ممالک ہیں وہ کپاس کی ریسرچ پر کثیر سرمایہ خرچ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے کہیں زیادہ ہے۔جب کہ  روائتی طریقہ کار کی وجہ سے ہمارے ہاں کپاس کی ریسرچ پر فنڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔  ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے کام میں جدت  لانے کے لئے  اداروں میں جنیاتی ٹیکنالوجی کے کام میں مہارت رکھنے والے  چند ایک بائیو ٹیکنالوجسٹ،ورالوجسٹ زرعی سائنسدانوں کی فوری ضرورت ہے جو کپاس کی کلائمٹ سمارٹ اور ریزیلیئنٹ اقسام کی تیاری میں اپنا اہم کردار ادا کریں اور ایڈوانس ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی تیار کردہ کپاس کی اقسام والے بیجوں کی ملٹیپیکیشن کے لئے کوئی پراپر سسٹم بنانا ہوگا تاکہ ملک بھر کے کپاس کے کاشتکاروں کو اعلی،معیاری اور خالص بیج کی دستیابی ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ اٹامک انرجی کیمیشن کے اداروں CEMB،NIBGEوغیرہ کے علاوہ مختلف انٹر نیشنل سیڈ کمپنیوں مونسینٹو،بائرز، وغیرہ کے ساتھ بھی اعلی سطح پر ایم او یو سائن کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ سب کام آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ایپٹما کو کاٹن سیس ایکٹ کے تحت ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں کپاس کی ترویج وترقی کے لئے اپنا حقیقی کردار اد ا کرنا ہوگا۔مگر ایپٹما  نہ تو کپاس کے کاشتکاروں کے لئے کوئی اقدامات اٹھا رہی ہے اور نہ ہی کپاس کے ریسرچ اداروں کے لئے اپنا فعال کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اور کاٹن سیس جو کہ سنٹرل کاٹن کمیٹی کا قانوناً حق ہے وہ بھی ادا نہیں کیا جارہا۔ اس کے برعکس آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن  حکومت سے ہر سال سینکڑوں ارب کی حکومتی مراعات لیتی چلی آ رہی ہے۔ ایپٹما کو ٹیکسٹائل سیکٹر کے لئے سستی بجلی،سستی گیس،درآمدی ٹیکسٹائل مشینری پر زیرو ٹیکس، ڈیوٹی فری کاٹن،زیرو مارک اپ پر اربوں روپے کے بینک قرضہ جات کے علاوہ دیگر بہت سی اربوں کی مراعات حاصل ہیں لیکن بدلے میں  کپاس کے کاشتکاروں کو ایک روپے کی بھی سہولت نہیں دیتے ۔الٹا سیس کی ادائیگی کی مد میں پی سی سی سی کے4ارب کے نادہندہ ہیں۔
 پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی ترقی کی دھوم ایک طرف لیکن موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اگر ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے ہی موازنہ کرلیں تو پاکستان کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ ہندوستان اور چین تو دور کی بات ہے ہم سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ حکومت سے اربوں کی مراعات لینے والی ایپٹما کی کارکردگی کا اگر ہم بنگلا دیش کے ساتھ موازنہ کریں تو آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ڈان نیوز کے مطابق سال2021 میں بنگلا دیش کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 34 ارب ڈالرز جبکہ پاکستان کی15.4 ارب ڈالرز رہیں۔ 2021 میں پاکستان میں دیگر صنعتوں کو25 سے 30 روپے فی یونٹ بجلی جبکہ پاکستان میں ایپٹما کوصرف 9 روپے فی یونٹ دی گئی۔ کوئی ایپٹما سے یہ نہیں پوچھ رہا بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسڑی کے پاس ایسا کیا ہے جو ایپٹما کے پاس نہیں ہے۔پاکستان بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات کا بمشکل تیسرا حصہ ہے۔مختلف نجی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ 50 فیصد سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری بند پڑی ہیں۔ اس حساب سے برآمدات میں بھی 50 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا جو دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر عوام کے ٹیکس کے پیسوں کی قربانی دی جا رہی ہے تو نتائج بھی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔اگر بجلی کے بلوں میں دی گئی رعایت کو ہی پیمانہ مقرر کرلیا جائے تو ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف 3 گناہ طے کیا جانا چاہیے تھا مگرایسا نہیں ہوا۔
 ایپٹما نے2020تا2025تک 25 ارب ڈالر ایکسپورٹ کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے لیکن وہ بھی اس وقت جب حکومتی امداد اس رفتار سے ملتی رہیں جو آج مل رہی ہیں۔ان مراعات میں بجلی کے نرخ اور خام مال میں سبسڈی اور ٹیکس ریفنڈ شامل ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں ہمارے کپاس کے کاشتکار کی فی ایکڑ پیداوار،کپاس کی ریسرچ پر سرمایہ کاری اور ٹیکسٹائل اندسٹری کے شعبہ کی کارکردگی میں بہتری اور جدت لانے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے کاٹن پالیسی اور ٹیکسٹائل پالیسی دونوں کی تشکیل بہت ضروری ہے جس کی معیاد کم از کم 3 سال  ہو۔ ٹیکسٹائل اندسٹری کو دھاگہ سے پیسے بنانے کی بجائے بنگلا دیش کی طرح ویلیو ایڈیشن کی طرف آنا ہوگا اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنا کرملکی ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا۔ جس طرح ٹیکسٹائل سیکٹر ہر سال حکومت پاکستان سے اربوں روپوں کی مراعات اور سبسڈی لے رہا ہے۔جبکہ کاشتکاروں کی تربیت اور انہیں عہدحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے  ریسرچ اداروں اور اپٹما کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن اگر صحیح معنوں میں سنٹرل کاٹن کمیٹی کی مدد کو آگے آجائے تو یہ ادارہ بہت اوپر تک جا سکتا ہے جس سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کو خام مال کی صورت میں فائدہ ہوگا بلکہ ہر سال2تا3ارب ڈالرز درآمدی کپاس کے پیسے بھی بچ جائیں گے۔اس وقت پنجاب حکومت کی جانب سے کپاس اگاؤ مہم کا سلسل زور شور سے جاری ہے جو ایک احسن اقدام ہے  اس سے آپ زیادہ رقبہ پر کپاس تو اگا لیں گے لیکن کپاس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے اس شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں بھی اچھے اور معیاری جنیاتی بیجوں کی تیاری  کے لئے ہمیں جدید کاٹن بریڈنگ اینڈ بائیوٹیکنالوجی پرکام کرنے کی ضرورت ہیجس پر توجہ دینے کے لئے سنجیدہ پلاننگ کرنا ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...