لیڈی ڈیانا کیا کمال کی شخصیت تھی، ایسے لگتا ہے کہ اپسرانیچے اتر آئی ہے۔ لاکھوں افراد اس کے دیوانے تھے ۔ لیڈی ڈیانا جب پاکستان تشریف لائیں تو ان سے ملنے کا موقع ملا۔ اس وقت تک عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا تھا۔ لیڈی ڈیانا اپنی سہیلی جمائمہ کے لیے آئی تھی ۔ ان کے اعزاز میں شوکت خانم کے لان میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیاتھا۔ میں ان دنوں ’نوائے وقت‘ کے لیے کام کر رہا تھا ۔مجھے یاد آیا اس وقت شوکت خانم کے میڈیا مینیجر عنصر صاحب ہواکرتے تھے۔ انھوں نے ملاقات کا اہتمام کروایا۔ لیڈی ڈیانا خیر سگالی کی سفیرتھیں اور دنیا بھر میں بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ آج ان کی یاد بارودی سرنگ کے حوالے سے آئی ہے۔ بارودی سرنگ پر پائوں آ جانے سے بندہ اگر دنیا سے رخصت نہ ہو تو ہمیشہ کے لیے اپاہج ضرور ہو جاتا ہے۔ لیڈی ڈیانا بہت جلد ایک حادثے کے نتیجہ میں اگلے جہاں سدھار گئیں زندہ رہتیں تو شاید عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کرتیں کہ بارودی سرنگ کو لات نہیں مارتے کیونکہ اس کانتیجہ بھیانک ہی نکلتا ہے۔
عمران خان کا پائوں بارودی سرنگ پر نہیں آیا بلکہ انھوں نے بم کو فٹ بال سمجھ کر لات مار دی ہے ۔ جن لوگوں نے یہ سارا جال بچھایا تھا اور جو منصوبہ تیار کیا گیا تھا وہ کامیاب نہیں ہوا۔ ان کی گرفتاری ہوئی، چیف جسٹس نے ان کی درخواست کو سنا اور موصوف بکتر بند گاڑی کے بجائے بلٹ پروف مرسٹیڈیز میں پورے پروٹوکول کے ساتھ سپریم کورٹ تشریف لائے۔ اس وقت تک یہ گمان موجود تھا کہ ہو سکتا ہے کہ انقلاب دروازے تک پہنچ گیا ہو۔ انقلاب تو نہیں آیا لیکن انقلاب لانے والے غدار قرار پاگئے ہیں۔ شاہراہوں پر ان غداروں کے پوسٹر آویزاں کیے گئے ہیں اور من چلے ان کو جوتے رسید کر رہے ہیں۔ شاید عمران خان کا سحر جاری رہتا اگر وہ رہائی کے بعد ایک غصے سے بھری تقریر نہ کرتے، فوج کو گالیاں نہ دیتے۔ویسے فوج کے ساتھ وہ یہ کام گذشتہ ایک برس سے کر رہے تھے۔ انھیں کیا علم تھا کہ اب فوج کا سربراہ جنرل باجوہ نہیں بلکہ جنرل عاصم منیر ہے۔
سوشل میڈیا پر لوگو ں کی ذہن سازی کرنا اور اپنے کارکنوں کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے تیار کرنا دو مختلف کام ہیں۔ کارکن اس وقت تیار ہوتے ہیں جب ان کے پاس کوئی نظریہ ہو۔ لوگ اس نظریے سے خود کو جوڑ کر رکھیں ۔ اس پر بحث مباحثہ ہو اور دلائل کے ذریعے ایک دوسرے سے مکالمہ کریں لیکن عمران خان کی جدوجہد میں صرف گالیاں تھیں۔ انتہائی پوش علاقوں میں رہنے والے نظریاتی جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہوتے ۔ان میں سکت نہیں ہوتی کہ وہ ریاست کے خلاف کھڑے ہو سکیں۔ آج دیکھیں جو گرفتار ہو رہے ہیں وہ اپنے کیے پر معافی مانگ رہے ہیں۔ گرفتاری سے پہلے کے بیان دیکھیں تو لگتا تھا کہ شاید ان سے بڑا کوئی بھگت سنگھ نہیں۔ ضیاء الحق کا مارشل لا جب اپنے عروج پر تھا تو لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد کو شاہی قلعہ کے زیر زمین عقوبت خانوں میں بند کر دیا گیا اور ان پر جو تشدد ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ عوام پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے میدان لگتا ۔ پیپلزپارٹی کے لوگوں کو ٹکٹکی پر باندھ دیاجاتا اور ان کی ننگی پشت پر کوڑے رسید کیے جاتے۔ کوڑے کھانے والوں کی اکثریت نے جیے بھٹو کے نعرے لگائے بلکہ کچھ نے تو ضیاء الحق کو گالیاں بھی دیں۔ ان لوگوں نے مزاحمت کی تاریخ کو رقم کیا۔ آج کے انقلابی تو بچوںکے کھلونوں سے بھی کمزور ثابت ہوئے ہیں۔
عمران خان پروجیکٹ باہر کے لوگوں نے ڈیزائین کیا تھا ۔ جب موصوف لانچ کیے گئے تھے اس وقت بہت سے لوگوں نے یہ جان لیا تھا کہ ان کے سیاست میں آنے کا مقصد کیا ہے۔ بعد میں جب فوج کچھ لوگوں نے اس پروجیکٹ کو اپنا لیا تو فوج کے اندر بھی عمران خان کی محبت کادرس شروع ہو گیا کہ بہت ایماندار آدمی ہے اور یہ ملک کو چار چاند لگا دے گا۔ فوجی کے ذہن میں جب آپ ایک چیز بٹھا دیں تو وہ اسے لے کر چلتا رہتا ہے۔ فوج سے ریٹائر ہونے والے سرکردہ افراد عمران خان کی پروجیکشن پر مامور ہو گئے۔ باقی کسر ففتھ جنریشن وار کے نام پر پوری کر دی گئی۔ قوم کے پیسے سے عمران خان کے انقلابی تیار ہوئے اور انھوں نے انقلاب لانے کی خاطر فوجی اداروں پر ہی حملہ کر دیا۔ پی ٹی آئی کے جن لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے وہ رہائی کے بعد گھر بعد میں جاتے ہیں پہلے پریس کانفرنس کرتے ہیں کہ ہمارا 9 مئی کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں اور ساتھ ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا سیاست اور عمران خان سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے اس صورتحال پر زبردست تبصرہ کیا کہ ’ــ ٹائر بنانے والے ہوا بھرنے کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت ہوا خارج کرنے کی جگہ بھی رکھتے ہیں ۔‘ عمران خان صاحب، یہ مکافاتِ عمل ہے ، تاریخ کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھوم رہا ہے ۔اسے آپ کی بدقسمتی کہہ لیں کہ آپ نے راستے میں پڑے بم کو کک لگا دی ہے ، اس کے بعد تو انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔