فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

پچھلی صدی کے آخر میں جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو شعیب بن عزیز نے اس واردات کو یوں بیان کیا : 
گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے 
جو نامہ بر رہے ہیں ڈر رہے ہیں
اس مرتبہ معاملہ بالکل مختلف ہے ۔ کوئی فوج اپنی عزت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتی ۔ پڑوسی ملک چین میں ایک کامیڈین کوچینی فوج کے بارے ایک مزاحیہ لطیفہ سنانے پر دو ملین جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ پھر 9مئی کا سانحہ توہین سے کہیں بڑھ کر ہے۔ فواد چودھری، اسد عمر، شیریں مزاری، سیف اللہ نیازی، ابرار الحق سبھی پارٹی سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ دہشت گردی ’جوگے‘ ہی نہیں ۔ رہا وہ نارووال کا جاٹ، ایک جاٹ گنڈاسہ چھوڑ، طبلے سارنگی پکڑ گانا بجانا شروع کر دے تو پھر وہ جاٹ کہاں رہتا ہے؟ 9 مئی کا سانحہ چند سرپھرے قائدین اور کارکنوں کا معاملہ ضرور ہو سکتا ہے ورنہ یہ تحریک انصاف کے مجموعی ضمیر کی عکاسی ہرگز نہیں کرتا۔ آپ خوبرو فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کو کسی طرح بھی دنیا کی پہلی طیارہ اغوا کرنے والی فلسطینی لیلیٰ خالد سے نہیں جوڑ سکتے۔ لیلیٰ خالد کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا۔ یہ پی ایل او کے ابتدائی ارکان میں سے تھی۔ یاسر عرفات اور مذہب کا عنصر اس تنظیم میں بہت بعد میں آیا۔
ایک سیاسی رہنما اور ایک قبائلی سردار میں بہت فرق ہوتا ہے، جناب! ایک قبائلی سردار کا مزاج ہی اور ہوتا ہے۔ بلوچ سردار نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارنے کے لیے بہت جتن کرنا پڑے۔ نواب نوروز خان کے پاس جرگہ بھیجا گیا۔ جرگہ کی گود میں قرآن پاک کا نسخہ بطور ضامن موجود تھا۔ نواب نوروز خان نے کہا ، ’جب یہ قرآن کو ضامن بنا رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر بھلا اور ضمانت کیا ہوگی؟‘ سو وہ یہ ضمانت مان کر پہاڑوں سے نیچے اتر آئے۔ حکومت اپنے وعدوں سے پھر گئی۔ انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ نواب نوروز خان سمیت آٹھ بلوچوں کوموت کی سزا سنا دی گئی۔ سزا یافتگان کے ورثاء (خواتین ) کی جانب سے مارشل لاء حکام سے رحم کی اپیل کردی۔ جب یہ بات نواب نوروز خان کے علم میں آئی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے اپیل واپس لینے کا حکم دیا کہ ہم اپنی خواتین کے ذریعے رحم کی اپیل نہیں کریں گے۔ نواب نوروز خان کو عمر رسید ہونے کی وجہ سے ان کی سزائے موت عمر قید میں بدل دی گئی ۔ ان کے بیٹے بٹے خان سمیت باقی سات بلوچوں کو پھانسی دے دی گئی ۔
ان کی نعشوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے کے لیے جیل کے دروازے پر ایک قطار میں رکھ دیا گیا۔ نواب نوروز خان کو جیل کے دروازے پر جانے کی اجازت مل گئی تاکہ اپنے بیٹے کا منہ دیکھ سکے ۔ جیل سپرنٹنڈنٹ دروازے پر نواب نوروز خان سے اس کے بیٹے کی تعزیت کرنے لگاتو نواب بولے، سبھی میرے بیٹے ہیں۔ پھر نواب نوروز خان نے اپنے بیٹے کی نعش سے کپڑا ہٹا کر اس کی ڈھلکی ہوئی مونچھوں کو انگلیوں سے تائو دے کر اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، ’یہ مرے نہیں ہیں۔ ان کی شادی ہوئی ہے۔ مرنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے قرآن مجید پر فیصلہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے‘۔ یہ ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک قبائلی سردار کا قبائلی تغافر تھا۔ قبائلی معاشرت میں قبائلی سردار ’لاشریک‘ہوتا ہے ۔ اس سے اس کے کسی فعل یا حکم کی پوچھ گچھ یا جواز نہیں پوچھا جا سکتا جبکہ ایک سیاستدان عدم تشدد، سیاسی ضابطہ اخلاق اور اپنے جماعتی منشور کا پابند ہوتا ہے۔ وہ ہر دم اپنے کارکنوں، عوام اور پریس کے سامنے وضاحتوں کے کٹہرے میںکھڑا پایا جاتا ہے۔
 14 مئی 2006ء کو پاکستان کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان لندن میں میثاقِ جمہوریت طے پایا ۔ اس معاہدے میں پہلی مرتبہ دونوں جماعتوں نے دفاعی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی سفارش کی ۔ دونوںجماعتوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ وہ کسی فوجی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے اور نہ ہی حکومت میں آنے یا کسی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے فوج کی امداد حاصل کریں گے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل اس معاہدے میں بہت سی ایسی اور جمہوری شقیں بھی تھیں۔ اس زمانے میں صرف یہ دونوں سیاسی جماعتیں ہی اہم تھیں۔ ان دونوں کا اتفاق اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہ آیا۔سو عمران خان کو تیسری قوت کے طور پر سامنے لایا گیا۔
عمران خان میثاقِ جمہوریت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے شدید رد عمل کا نام ہے ۔ جسٹس بابر ستار نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا، ’ریاست کی جن معاملات میں دلچسپی ہو وہاں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا رحجان 1951ء تک جا پہنچتا ہے ‘۔ جسٹس بابر ستار کا اشارہ راولپنڈی سازش کیس کی طرف تھا۔ عائشہ جلال نے امریکا اور برطانیہ کی ’ڈی کلاسیفائیڈ‘سفارتی دستاویزات کی روشنی میں یہ تجزیہ کیا، ’ راولپنڈی سازش کیس امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں کی سازش کا نتیجہ تھا جس کے ذریعے انھوں نے ایک طرف نئی ابھرتی ہوئی قوم پرست، محب الوطن اور فوجی قیادت کو برباد کیا اور دوسری جانب کمیونزم کی تحریک کو روند ڈالا‘۔ بعد کے حالات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ان دو ممالک سے ایکا ہی رہا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی سے نتائج حاصل کرنے کی کوششیں کبھی ترک نہیں کیں۔ اس سلسلے میں ایک مثال اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام اور ان کے امیدواروں کی مالی امداد بھی ہے ۔
اب کیا ہوگا ؟بہت کچھ ہوگا۔ سزا، معافی تلافی، الیکشن کا التوائ، کسی کو مائنس کرنے کی خام خیالی۔ ایک صدی پہلے علامہ اقبالؒ نے ’سیاست‘کے عنوان سے یہ چار مصرعے کہے تھے۔ آج بھی حسب حال ہیں:
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری 
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں میں پیادہ 
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز 
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن