تحریر: انور خان لودھی
پنجاب میں کبھی وزارت تعلیم ایک تھی۔ وزیر تعلیم سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے معاملات کا ذمہ دار تھا۔ پھر کسی ارسطو نے مشورہ دیا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی دنیا بڑی وسیع ہے اس کی الگ وزارت ہونی چاہئے۔ اس تصور سے محکمہ ہائر ایجوکیشن نے جنم لیا۔ الگ وزیر، الگ سیکرٹری، الگ سے افسروں کا ڈھیر، وسائل کی فراوانی، اللے تللے، ہٹو بچو سب کچھ مل گیا۔ چاہئے تو تھا کہ اعلیٰ تعلیم کی مانگ کہکشاں سے بھر دی جاتی مگر ہر خواہش پہ دم ہی نکلا۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کالجوں، یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈز کا ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ ہے۔ پنجابی کا اکھان ہے" جیہڑا بھنو، اوہو ای لال" یعنی جو بھی تربوز کاٹو وہ سرخ نکلا۔ سرخ تربوز نکلے تو خوشی ہوتی ہے مگر خوش ہونے والے جان لیں کہ پنجابی کا یہ اکھان طنزیہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی قسمت دیکھئے ابھی تک اس کو منسٹر نہیں مل سکا۔ سنا ہے جس محکمے کا منسٹر نہ ہو اس کا والی وارث وزیر اعلیٰ ہوتا ہے یا ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اعلیٰ تعلیم اب مریم نواز شریف کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ وزیر اعلیٰ کے براہ راست کنٹرول کے باعث امید تو یہ تھی کہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سرپٹ دوڑتا اور دوسرے محکموں سے سبقت لئے نظر آتا مگر اس محکمے کی کارکردگی تینوں فارمیٹ میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ تعلیم بورڈز میں چئیرمین ہیں نہ سیکرٹریز اور نہ ہی امتحانات کے کنٹرولر۔ اندریں حالات معاملات زبوں حالی کی طرف ہی جائیں گے۔ دو درجن سے زائد یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلرز کی راہ تک رہی ہیں۔ کسی جامعہ میں پرو وی سی کو وائس چانسلر بنایا گیا ہے اور کچھ اداروں میں اس عہدے پر ایڈیشنل چارج سے وی سی کا دفتر با رونق بنایا گیا ہے۔ محسن نقوی کی نگران حکومت نے صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر لگانے کے لئے ڈول ڈالا تھا، سرچ کمیٹیاں بنا کر وائس چانسلرز کی آسامیاں مشتہر کیں لیکن یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا اور ہائیکورٹ نے اس نکتے پر حکم امتناعی جاری کر دیا کہ وائس چانسلرز تعینات کرنا نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں۔ رواں برس آٹھ فروری کو عام انتخابات ہوئے، نگران کی جگہ باقاعدہ حکومتیں بن گئیں۔ پنجاب حکومت دو ماہ تک چپ سی بیٹھی رہی کہ وائس چانسلرز تعینات کرنا بھی بھلا کوئی کام ہے۔ پھر کسی نے مت دی تو حکم امتناعی ختم ہوا۔ صوبائی کابینہ نے 30 اپریل کو سرچ کمیٹیاں قائم کرنے کی منظوری دی۔ ایک امید بندھی کہ اب پنجاب کی جامعات کو مستقل وائس چانسلرز ملیں گے اور یونیورسٹیاں پائیدار ترقی کی شاہراہ پر چل پڑیں گی۔ مہینہ ہونے کو آیا، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ان سرچ کمیٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکا۔ جو کہے وہ برا۔ بھئی سرچ کمیٹیاں نوٹی فائی ہوں گی تو وہ وائس چانسلرز کی سرچ کا کام شروع کریں گی، طریقہ کار کا تعین کریں گی، اشتہار دیں گی، درخواستیں وصول کریں گی، درخواست گزاروں کی شارٹ لسٹنگ اور پھر ان کا انٹرویو کریں گی۔ ہر یونیورسٹی کیلئے میرٹ وائز تین تین نام ایچ ای ڈی کے سپرد کریں گی۔ ایچ ای ڈی ان تین تین ناموں پر مشتمل سمریاں بنائے گا، سمریوں کا سفر بھی کون سا سادہ اور مختصر ہوتا ہے۔ ایچ ای ڈی سے سمری منسٹر ہائر ایجوکیشن کو بھیجی جاتی ہے۔ وہاں سے وزارت قانون کو تاکہ وہ جائزہ لے کہ اس میں کوئی قانونی سقم تو نہیں۔ پھر یہ سمریاں چیف سیکرٹری آفس پہنچتی ہیں جو ان کو پر لگا کر وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کی جانب اڑاتا ہے۔ یہاں پہ سمریوں کی قسمت اچھی ہو تو جلد ان کی جانچ ہو جاتی ہے ورنہ 8 کلب کی 12 فٹ اونچی دیوار کے اس پار نہ کسی کی رسائی آسان ہے اور نہ یہ جاننا ممکن کہ کس سمری کی یہاں قیام کی مدت کتنی ہے۔ سمری ٹھیک بنی ہو تو منظور یا نامنظور کر دی جاتی ہے، کوئی دقیقہ فروگزاشت ہو تو اسے واپس محکمے کو بھیج دیا جاتا ہے کہ ایسے نہیں اایسے کر کے بھیجیں۔ سمری کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا کر پھر انہی راہداریوں اور چھننیوں سے گزار کر وزیر اعلیٰ ہاوس تک پہنچایا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی منظوری ہو جائے تو پھر لاٹ صاحب یعنی گورنر پنجاب کو رسمی منظوری کیلئے بھیجی جاتی ہے۔ گورنر اگر ن لیگ کے محمد بلیغ الرحمان ہوں تو ستے خیراں، سمجھو سمری منظور ہوگئی لیکن اگر گورنر ہاوس میں پیپلز پارٹی کا سردار سلیم متمکن ہو تو سمری کے ساتھ کوئی بھی سلوک ہو سکتا ہے۔ اگر ابھی تک پنجاب حکومت کی سمریوں پہ گورنر نے اعتراضات لگانا شروع نہیں کئے تو مقام شکر ہے۔ مستقبل قریب میں ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کا راگ الاپا جائے گا۔ گورنر سمری منظور کر دے تو اس کی محکمے کو واپسی کا روٹ بھی وہی ہے جس سے راست سے یہ اوپر آئی تھی۔ اگرچہ اب سمری کے سفر کا کام ڈیجیٹل اور پیپر لیس ہے لیکن سفر تو سفر ہوتا ہے۔ کسی بھی مرحلے میں اس کو بریک لگ جائے تو افسر کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ جب اتنے مراحل کے بعد وائس چانسلرز تعینات ہونے ہیں تو اس میں محکمہ ہائر ایجوکیشن بڑا بھی تیزگام ہوتو مہینوں لگ جائیں گے۔ لہذا اس اہم کام میں جانے کیوں سست روی روا رکھی گئی۔ مستقل وائس چانسلرز نہ ہونے سے یونیورسٹیوں کو طویل المعیاد منصوبہ سازی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بجٹ سازی، خالی آسامیاں پر کرنا، تعلیمی و انتظامی فیصلے ایسے امور ہیں کہ مستقل وائس چانسلرز کا ہونا از حد ضروری ہے۔ کپتان نہ ہو یا ایویں ایویں کا ہو تو ٹیم کیا کھیلے گی۔ یونیورسٹیوں کی حالت یہ ہے کہ کچھ برسوں سے متعین نشستوں پر طلباءکی تعداد پوری نہیں کر پا رہیں۔ ہائر ایجوکیشن میں داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس کی تعداد میں کمی کے کیا اسباب ہیں اس پر کسی اور کالم میں گزارش کروں گا لیکن اتنا عرض کر دوں کہ سٹوڈنٹس کم آئیں گے تو یونیورسٹیوں کو فیس کی مد میں ریونیو بھی کم ملے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یونیورسٹیوں کو جو سالانہ گرانٹ دیتی رہی ہیں ان میں پہلے ہی خوف ناک حد تک کمی آ چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کو کئی بار اپنے پاوں پہ کھڑا ہونے کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔ کم سٹوڈنٹس اور غیر مستقل وائس چانسلرز کے ساتھ یونیورسٹیوں کو پاوں پہ کھڑا ہونا تو درکنار، بقا کی جنگ لڑنا مشکل ہو رہا ہے۔ وفاقی ایچ ای سی نے تھوڑی سی جرات دکھائی ہے کہ ایک تو وفاق سے یونیورسٹیوں کو دینے کیلئے زیادہ فنڈز مانگے ہیں اور ثانیاً یہ کہ صوبائی حکومتوں کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کی گرانٹ جاری کریں اور فیاضانہ رقوم مختص کریں۔ چلتے چلتے ایک خبر سن لیں کہ تعلیم کے نام پر ہماری اشرافیہ کا پیسہ کہاں اور کس کے پیٹ میں جا رہا ہے۔ برٹش کونسل کے مطابق اِمسال ایک لاکھ طلبا او لیول کا امتحان دے رہے ہیں ، اِن امتحانات میں ا?ٹھ مضامین کی فیس کل ملا کر 211،000 روپے ہے ،گویا فقط او لیول کے امتحان سے برٹش کونسل پاکستان سے 21 ارب روپے اکٹھے کرکے لے جائے گا جبکہ وفاقی حکومت کا ہائر ایجوکیشن کا پورے سال کا بجٹ 65 ارب روپے ہے۔ سو ہماری اشرافیہ کے بچے ایک امتحان پر 21 ارب روپے خرچ کرتے ہیں جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سات برس کے بجٹ کے برابر ہے۔ جب تک ہماری سیاسی قیادت تعلیم کو اہمیت نہیں دے گی اس وقت تک ہم پڑھی لکھی قوم نہیں بن سکیں گے۔ ان پڑھ اور پڑھے لکھے کبھی برابر ہو سکتے ہیں؟ اس مرحلے میں اسرائیل کی ہائر ایجوکیشن کی کوالٹی اور ان کے گریجوایٹس کی قائدانہ صلاحیتوں کی مثال جان بوجھ کر چھپا رہا ہوں کہ کہیں کوئی 'خوش خیال" اسرائیل نوازی کا طوق اس عاجز کے گلے میں نہ ڈال دے۔