ڈاکٹرعارفہ صبح خان
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ جلد اچھے دن آئیں گے۔ ہماری پوری توجہ عوام کو ریلیف دینے پر ہے۔ ہم مہنگائی میں کمی پر غور کر رہے ہیں۔ مریم نواز یاد کریں کہ وہ الیکشن سے پہلے کیا کیا دعو ٰے کرتی تھیں کہ جب میاں نواز شریف آئیں گے تو پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ عوام کو سکھ سکون اور خو شیاں ملیں گی۔ مہنگائی با لکل ختم ہو جائے گی۔ ہم عوام کو ہر طرح کا ریلیف دیں گے۔ پاکستان ترقی کرے گا اور عوام خو شحال ہو جائے گی۔ مریم بی بی!پتہ نہیں آپکو کوئی بتا تا نہیں یا آپ حقائق سے واقف نہیں کہ جو حالات پاکستانیوں کے گزشتہ سال تھے۔ وہ نسبتاً بہتر تھے جبکہ اُس سے پہلے سال میں جائیں تو ہر چیز مختلف تھی جبکہ 2018ءسے پہلے کے حالات بہت بہتر تھے۔ آپ نے الیکشن سے قبل تقریروں میں عوام ی تقدیر بدلنے پر دھواں دار تقریروں کیں ۔ پنجاب کی عوام سے وعدے کیے کہ اُنکی زندگی سے مہنگائی کی نحوست ختم کریں گے۔ خوشحالی اور خوشیاں لائیں گے۔ لوگوں کے دُکھ درد دُور کریں گے مگر آپکی فیملی کے نصف درجن افراد اہم ترین عہدوں پر متمکن ہیں جبکہ آپکے چچا اور آپکی بہن کے ُسسراسحاق ڈار کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑھ ہے۔ خزانے آپکی اجازتوں سے خرچ ہو رہے ہیں لیکن عوام چیخ رہی ہے کہ آپ کے آنے کے بعد حالات بد سے بد ترین کا رُخ اختیار کر چکے ہیں۔ و ہ عام آدمی یہ خواب تو دیکھ لیتا ہے کہ وہ ایک دن کے لیے ملک کا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ بن جائے تو وہ کیا محسوس کر ے گا یا کیا اقدامات کر ے گا۔ میرا آپکو مشورہ ہے کہ آپ ایک دن ایک عام شہری یا عام عورت کے طور پر گزار کر دیکھیں جس میں آپ ایک عام سے آدمی کی بیٹی بہن بیوی اور ماں ہوں۔ آپکے والد کے محدود ترین وسا ئل ہوں۔ آپکے ساس سُسرکی طرف سے دیمانڈ ہو کہ آپکودس ایک پلاٹ دیا جائے۔ ٹو ٹے پھو ٹے گھر میں سے آپکو حصہ دیا جائے۔ بو ڑھے اور بیمار ماں باپ کہاں جائیں۔ ےہ سُسرال والوں کا دردِ سر نہیں ۔ آپکی جوان بہنیں یا شادی شدہ بھائی کہاں رہیں گے۔ سُسرال والوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔ شوہر چاہتا ہے کہ آپ گھر سے کیش لائیں تا کہ وہ کوئی کاروبار کر سکے۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں کہ آپ تین مرلے کے گھر میں رہتی ہیں۔ آپکے پانچ بچے ہیں۔ اُسی گھر میں ساس سُسر، جیٹھ جٹھانی، دیور اور دو نندیں بھی رہتی ہیں۔ عید آتی ہے لیکن آپکے شوہر ملازم ہیں اور کل آمدن 85ہزارروپے ہے جس میں سے 35ہزار گھر کے خرچے 25ہزار بلِوں اور 20 ہزار بچوں کی فیسوں میں چلے جاتے ہیں۔پانچ ہزار میں شوہر موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتا ہے تو شوہر کا ایک ایک پیسہ ختم ہو جاتا ہے۔ 35 ہزار میں تو گروسری نہیں آتی۔ نہ کپڑے بنتے، نہ پھل گوشت آتا۔ نہ گھر میں کو ئی پنکھا کولر اے سی، یو پی ایس لگ سکتا۔ مجبوراً آپ اپنی ایم اے کی اکلوتی ڈگری لیکر جگہ جگہ انٹر ویو دیتی ہیں مگر فرسٹ ڈویژن ہونے کے با وجود آپکو اوور ایج ہونے کی وجہ سے سرکاری نوکری نہیں ملتی اور نہ آپکے پاس سفارش ہے۔ صرف قا بلیت ہے کوئی قا بلیت کو گھاس نہیں ڈالتا۔ مجبوراً آپکو کسی پرا ئیویٹ سکول میں ٹیچنگ کی جاب 35ہزار میں ملی ہے جس سے آپ بچوں کے ےو نیفارم جوتے کتابیں لنچ بکس اور ویگن کے کرائے بھرتی ہیں۔ گھر میں مہمان داری بھی چلتی ہے اور کبھی کبھار ہفتے میں دو بار گوشت کھانے کی بھی خوا ہش ہو تی ہے۔ آپکی اور آپکے شوہر کی بھی کئی ضروریات ہیں۔ آپکو بھی سستے ہی سہی مگر جوتوں کپڑوں کی ضرورت ہو تی ہے چا ہے سال میں معمولی دو جوڑے ہی بنائیں۔ شادی بیاہ عید بقر عید پر بھی لین دین کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ سکو ل سے بسوں ویگنوں میں دکھے کھاتی ہو ئی گھر آتی ہیں۔ گھر آ کر کھانا بناتی ہیں کیونکہ ساس خود کو بیمار کہتی ہے اور نندیں چھوٹی کا کیاں بن جاتی ہیں۔ خوا ہشات کا دم گھو ٹنے، ارمانوں کا خون کرنے کے با وجود ضروریات پو ری کرنا مشکل ہو تا ہے لہذا آپ شام کو تین گھنٹے گلی کے چار پانچ بچوں کو ٹیوشن پڑ ھاتی ہیں تب پندرہ ہزار ہاتھ لگتے ہیں۔ آپ بھی آخر انسان ہیں۔ سکول، محلے، رشتے داروں میں کو ئی فنگشن آتا ہے تو لاکھ دل مارنے کے با وجود خواہش ہو تی ہے کہ کاش چار پانچ ہزار کا ایک سوٹ میں بھی خرید کر پہن سکتی۔ سونے کی نہ سہی آرٹیفیشل چوڑیاں اور جُھمکے ہی ہزار پانچ سو کے خرید سکتی۔ آج بہت تھکی ہوئی تھی تو کھانا گھر بنانے کے بجائے فوڈ پانڈا سے منگوا لیتی۔ چلو ہزار دو ہزار رُوپلی کا پرس ہی خرید لیتی یا پرس چھوڑو۔ کم از کم دو ہزار کا کو ئی ڈھنگ کا جوتا لے لیتی۔ پُرانے دونوں سینڈل تو اب کاٹنے لگے ہیں۔ انتہائی بوسیدہ، بد رنگ اور تکلیف دہ ہو گئے ہیں۔ کاش سکو ل میں جب بھوک لگتی تو میں بھی کنٹین پر بیٹھ کر تین چار سوکے برگر سموسے چائے کھا پی سکتی۔ کاش! عید پر مہنگے نہ سہی تو سستے ہی نئے کپڑے بنا سکتی۔ ہر سال وہُی کپڑے پہننے پڑے ہیں۔ کاش ! کسی عید پر تو بکرا نہیں تو گا ئے میں حصہ ڈال سکتی تو مہینہ بھر گو شت کھانا نصیب ہوجاتا۔ تو مرےم بی بی یہ ایک عام عورت کی زندگی کی معمولی سی جھلکیاں ہیں جن میں محرومیاں تلخیاں خا میاں تُرشیاں، اداسیاں اور ناکامیاں ہیں۔ کیا ایک عام عورت انسان نہیں ہوتی؟ کیا اس ملک میں رہنے والے عام لوگ جانور ہیں؟ کیا انھیں جینے کا حق نہیں؟ کیا وہ دوبارہ دنیا میں آ سکیں گے؟ کیا زندگی کی خو شیوں پر عوام کا حق نہیں؟ کیا عوام صرف بھاشن سُننے، جھوٹے نعروں دعوٰوں وعدوں کے لیے ہیں۔ خدا کے لیے انکے گرد ہائپر رئیلٹی کا جال نہ بُنیں۔ آپ تو جدی پشتی تو نگر ہیں۔ یہ سوچیں کہ اگر آپکو ایک دن ایسا گزارنا پڑ جائے تو آپ کیا کریں گی۔ 76سال سے یہ عوام جھوٹ کی چکی میں پیسی جا رہی ہے۔ چالیس سالوں سے آپ لوگوں کی حکومت ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتا ئیے کہ آپ لوگوں نے عوام کی بہبود کے لیے کیا کیا ہے؟؟؟ کیا ا س ملک کے خزانے پر اشرافیہ کا حق ہے؟ اس ملک کے لوگوں کو بھی انسان سمجھیں۔ آئی ایم ایف کا ٹنٹنا سر پر کھڑا رکھ کے پورے پاکستان کو مہنگائی میں جھونک دیا ہے۔ ریلیف کے بدلے تکلیف دی جارہی ہے۔ اگر بجٹ عوام دشمن ہوا تو انقلاب ضرور آئے گا۔ اگر اب اچھے دن نہ آئے تو پھر سب کے لیے بُرے دن آئیں گے۔ ہمارا کام اصلاح کرنا ہے۔ اچھا مشورہ اچھے لوگ دیتے ہیں۔ منافق اور مطلبی تو صرف چا پلوسیاں کرتے ہیں۔ قدرت با ر بار موقع نہیں دیتی۔ ےہ مو قع ضا ئع نہ کریں ورنہ پھر اچھے دن اشرا فیہ کے بھی نہیں رہیں گے۔
کیا واقعی کبھی اچھے دن آئیں گے
May 29, 2024