بدھ‘20  ذیقعد 1445ھ ‘ 29 مئی 2024

آرمی چیف سے 2 مرتبہ ملاقات ہوئی، جو بات کرنی تھی ماحول نہ ملا۔ گنڈاپور۔ 
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ یہ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ ہم نے ان کی غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں خوف کے بت توڑ دئیے ہیں۔ آج یہ دن بھی سب دیکھ رہے ہیں کہ اداروں سے ٹکرانے والے سب کو للکارنے والے انتظار میں ہیں کہ کوئی ان کو تھوڑی سی لفٹ ہی کرا دے۔ 
لگتا ہے پلوں کے نیچے سے پانی گزرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ اب وقت وہ نہیں رہا۔ نرم اور مہرباں موسم گذر چکے اب گرم اور نامہرباں موسموں سے پالا پڑا ہے۔ ایسا موسم دوسری جماعتوں پر بھی آیا تھا۔ بھٹو اور نواز شریف بھی اس کڑے وقت سے گزرے ہیں مگر ان میں سے کسی نے ملک اور اس کے اداروں کے ساتھ ماتھا نہیں ٹکرایا۔ لوگوں کو ملکی اداروں کے مقابلے کی تلقین نہیں کی مگر پی ٹی آئی کے بانی نے، اس کے ساتھیوں نے تو سب کو للکارا اور یہ بھول گئے کہ اگر کبھی ملاقات کرنی پڑی تو کیا کریں گے۔ سو اب یہی ہو رہا ہے۔ بڑے دبنگ لہجے میں بات کرنے والے بھی ماحول سازگار نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ اڈیالہ جیل سے اب انقلاب و بغاوت کی بجائے مفاہمت اور مذاکرات کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اداروں کو اپنا کہا جا رہا ہے۔ مگر وہی غالب والی بات
دوست غمخواری کی میری سعی فرمائیں گے کیا
 زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے، کیا؟
ہاتھ سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور یہ ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ اب علی امین گنڈا پور کا بیان بتا رہا ہے کہ یہ ان کی اپنی شکست کی آواز ہے جس میں کسی سے گلہ نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ 
ملک چھوڑ دیں گے اسٹیبلشمنٹ کی غلامی قبول نہیں کریں گے: فضل الرحمن۔
جس ملک کے بنانے کا گناہ ان کے بڑوں نے نہیں کیا تو 
اب یہ بات تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ سے تنگ آ کر ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ جو مزے اس مملکت خداداد میں انہیں میسر ہیں وہ بھلا کہاں انہیں مل سکتے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں اسلام زندہ باد کانفرنس کبھی تحفظ پاکستان ریلی نکالتے ہیں۔ کبھی حکومت کے حق میں اور کبھی حکومت کے خلاف جلسے جلوس کرتے ہیں۔ کسی اور ملک میں ان چیزوں کا تصور بھی نہیں۔ بھارت وہ جانے سے رہے۔ وہاں اب مودی کی حکومت ہے وہ پہلے ہی مسلمانوں کو وہاں رہنے اور جینے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ وہ بھلا اب مولانا کو وہاں کیسے برداشت کریں گے۔ باقی اور کون سا ملک رہ جاتا ہے جہاں مولانا اپنا بوریا بستر سمیٹ کر جا سکتے ہیں۔ بے شک جے یو آئی والوں کے بڑوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ مگر یہ بھی دیکھ لیں انہیں جائے پناہ بھی یہاں ہی ملی۔ ان کی ساری سیاست یہاں ہی چلتی ہے۔ مولانا تو اب افغانستان جانے سے بھی رہے۔ وہاں کسی اسلامی جماعت کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ وہاں پہلے ہی طالبان اسلامی حکومت قائم کر چکے ہیں۔ ان کے سامنے کسی کا چراغ اب جلنے کا نہیں۔ لے دے کر مولانا کی قسمت میں یہی پاکستان رہ جاتا ہے۔ جہاں ان کی کوئی سنتا ہے۔ ان کی سیاسی گیم جاری رہتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اگر اس ملک سے جانے کی بات کرتے ہیں تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ انہیں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے آج وہ اپوزیشن میں ہیں تو کیا ہوا۔ کل پھر وہ کسی کے ساتھ مل کر حکومت میں آ سکتے ہیں۔ 
مسلم ووٹروں کو لبھانے کے لیے اپوزیشن والے مجرا کر رہے ہیں۔ مودی۔ 
اور اپنی یہ حالت ہے موصوف کی کہ رات کو ہندوتوا کے نشے میں جلسہ میں مسلمانوں کے خلاف کتھک کرتے ہیں تاتھئی تاتھئی کر کے ہندو ووٹروں کا دل لبھاتے ہیں۔ وہ کیا ہے۔ کیا وہ مجرا نہیں تو پھر ”کرشن داسی“ کا رقص ہوتا ہے۔ خود مودی بھی تو ہر جگہ مذہبی جذبات اچھال کر کبھی رام لیلا۔ کبھی مہا بھارت اور کبھی بھرت نایئٹم کا کھیل رچا رہے ہوتے ہیں۔ اس پر اپوزیشن والے اب کیا جواب دیتے ہیں یہ تو وہی جانتے ہیں۔ ویسے بھارتی ووٹروں کو یہ تو پتہ چل ہی گیا ہے کہ مودی صرف چائے ہی اچھی نہیں بناتے اداکاری بھی اچھی کر لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی یہ اداکاری صرف ہندو ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا نام لیتے ہوئے ان پر قولنج کا دورہ پڑتا ہے اور وہ شدت درد سے مغلوب ہو کر کبھی انہیں درانداز کبھی گھس بیٹھیئے کبھی کثرت سے بچے پیدا کرنے والے کہہ کر اپنے جگر کی آگ ٹھنڈی کرتے ہیں۔ مگر جب صبح درد سے آرام آتا ہے تو مسکین صورت بنا کر اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ یہ انہی مسلم ووٹوں کا خوف ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپوزیشن کو مجرا کرنے کے طعنے دے رہے ہیں اور خود انہی مسلم ووٹروں کو وہ کبھی چمپا کلی دکھا کراور کبھی کوئی نوٹنکی کر کے راضی کرتے پھرتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی جیسا موذی بھی اندر خانے مسلم ووٹر کی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ 
یکم جون تک شدید بارشوں کی پیشینگوئی۔
ابھی تک تو عوام آگ برساتے سورج کی گرمی سے جاں بلب ہو چکے ہیں۔ شدید ہیٹ ویوو کے ساتھ لوڈشیڈنگ عوام کی رہی سہی سانسیں بھی کھینچ رہی ہے۔ پورے ملک میں لو کا راج ہے۔ گرم ہوا کے تھپیڑے چہرے جھلسا رہے ہیں۔ اب پھر محکمہ قدرتی آفات اورموسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آج سے یکم جون تک ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارش ہو گی جسے ہم طوفان بادو باراں کہتے ہیں۔ ان پیشینگوئیوں سے تو ہمیں بابائے پیشینگوئی شیخ رشید یاد آ رہے ہیں جو آج کل اپنی دکان بند ہونے کی وجہ سے کبھی تندور سے کلچے خریدتے نظر آتے ہیں اور آج ان کی گوشت کی دکان سے گوشت خریدنے کی تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ روایتی قمیض شلوار واسکٹ کے ساتھ وہی سیاہ چشمہ لگائے نظر آ رہے ہیں۔ تصویر میں وہ نہایت مودب انداز میں قصاب سے گوشت کٹوا رہے ہیں۔ اگر وہ سیاست میں بھی ایسے ہی سنجیدہ کردار ادا کرتے تو آج وہ مہمان اداکار کی بجائے مرکزی کردار ادا کر رہے ہوتے۔ بہرحال اب شدید بارش اور اس کے بعد جو سیلابی صورتحال سامنے آنی ہے اس کا تصور ہی اس گرم موسم میں حلق خشک کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ برسات میں ہمیشہ بجلی کا بحران دوچند ہو جاتا ہے۔ جس سے عوام کو دوگنا زیادہ عذاب بھگتنا پڑتا ہے۔اس سےبچاو¿ کے لئے اقدامات تو حکومت نے ہی کرنے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...