خیبرپی کے میں سکیورٹی فورسز نے 2 اپریشنز کئے جس میں مزید 17 دہشتگرد ہلاک ہوگئے جبکہ 5 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ 24 گھنٹے میں ہلاک دہشت گردوں کی تعداد 23 ہو گئی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اپریشنز 26 اور 27 مئی کی درمیانی رات کئے گئے۔ 27 مئی کو ضلع ٹانک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر کارروائی کی گئی۔ کارروائی میں 10 دہشتگرد مارے گئے۔ دوسرا ا پریشن ضلع خیبر کے علاقے باغ میں کیا گیا، ا پریشن میں 7 دہشتگرد ہلاک کئے گئے۔ دو زخمی بھی ہوئے۔ فائرنگ کے شدید تبادلے میں 5 جوان بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ہلاک دہشت گردوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود برآمد کر لیا۔ دہشتگرد سکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں اور حملوں میں ملوث تھے۔
دشمن کے ایماءپر بزدل دہشت گرد عام شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔جہاں موقع ملتا ہے ان کی طرف سے دفاعی تنصیبات پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہواہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جاتی ہے۔بشام میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں کی گئی جس کے دستاویزی ثبوت وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی طرف سے میڈیا کے سامنے رکھے گئے اور افغانستان کو بھی دکھائے گئے ہیں۔قبل ازیں بھی افغانستان کو ایسے ہی ثبوت پیش کیے گئے تھے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی مگر افغان حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس نہ لیا گیا تو پاکستان نے افغانستان کے اندر داخل ہو کر دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ بھی کیے تھے۔
بھارت کی طرف سے نہ صرف افغانستان کی سرزمین پاکستان میں مداخلت کے لیے استعمال ہوتی ہے بلکہ بھارت ایران کی سرزمین بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن کا گرفتار ہونا ہے۔اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے پاکستان میں سلیپنگ سیل بھی بنائے گئے ہیں۔یہ بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔بھارت افغانستان میں تعمیراتی سرگرمیوں کی آڑ میں موجود ہے۔وہ افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے۔طالبان حکومت بھارت کا اس معاملے میں ساتھ دیتی ہے۔
ایران کے اندر بھارت کا عمل دخل کم ہو گیا تھا مگر اب پھر دس سال کے لیے چاہ بہار بندرگاہ بھارت کے حوالے کر دی گئی ہے۔ گویا ایک بار پھر بھارت ایران کے علاقے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرسکے گا۔علاقائی صورتحال کو دیکھ کر پاکستان کی ایجنسیوں اور فورسز کو مزید الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
پاک افواج بلا شبہ ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ یہ کام بخوبی سرانجام دے بھی رہی ہیں۔اس کے لیے پاک فوج کے سپوت اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔اس اپریشن جس میں پانچ جوان شہید ہوئے اور 23 دہشت گرد مارے گئے اس سے ایک روز قبل پشاور میں سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف ایک کارروائی میں 5 ملک دشمنوں کو جہنم واصل کیا اور 3زخمی ہوگئے تھے جبکہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے کیپٹن حسین جہانگیر سمیت 2 اہلکار شہید ہو ئے تھے۔دہشت گردی پاکستان میں جس علاقے میں بھی ہوتی ہے اس کے ڈانڈے بیرون ملک جا ملتے ہیں۔دہشت گرد عموماً امریکہ کا افغانستان میں رہ جانے والا اسلحہ استعمال کرتے ہیں جو افغان حکومت کی دسترس میں ہے۔ پاکستان کی طرف سے کئی مرتبہ افغانستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے یا خود ان کے خلاف ایکشن لے مگر پاکستان کے اس تقاضے کو در خور اعتناءنہیں سمجھا گیا جس سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی درآئی تھی۔اس میں مزید اضافہ بھی افغان حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔پاکستان کو ہر صورت اپنے ہاں امن درکار ہے اس کے لیے اندرونی یا بیرونی طور پر جس حد تک بھی جانا پڑے پاکستان گریز نہیں کرے گا۔
ملک کے اندر دہشت گردوں کے خلاف اپریشن جاری ہیں اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی ضرورت ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اس میں جو سب سے بڑی کمزوری ہے وہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف اس طرح سے کارروائیاں نہ ہونا ہیں جس طرح ہونی چاہئیں۔سہولت کاروں کی مدد کے بغیر پاکستان کے اندر مداخلت ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔
ہماری معیشت کے استحکام اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا دارومدار پاکستان میں امن و امان پر ہے۔دہشت گردی کا خاتمے اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے لیے سرگرم عمل رہنا صرف سیکیورٹی اداروں کا ہی کام نہیں، اس کے لیے ہر فرد اور ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوم متحد ہو جائے تو دہشت گردوں کو کہیں چھپنے کی جگہ نہ ملے اور ان کے سہولت کار ان کو کسی قسم کی مدد بھی نہیں پہنچا سکتے۔
دو روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کی میں درزاندہ سے ڈیرہ جانے والی مسافر بس کو تحصیل درابن کے قریب دہشت گردوں نے مسافروں کو اتار کر آگ لگا دی جس سے بس مکمل طور پر جل گئی۔ حکومت کا ساتھ دینے پر مسافروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ ڈرائیور پر تشدد کیا گیا۔ اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دہشت گرد موقع سے بآسانی فرار ہوگئے۔ایسے واقعات بلوچستان میں آبادیوں سے دور علاقوں میں ہوتے رہے ہیں مگر یہ سیٹلڈ اور شہری ایریا ہے اس میں ایسے واقعات کا ہو جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
آج ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کے سائے شدت سے منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہوکر سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ ہونے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث قوتوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔دہشت گردی علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہو،مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے یا کسی بھی سیاسی گروہ کی طرف سے، اس کے پیچھے بھارت کی موجودگی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔اس کے ناقابل تردید ثبوت اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے سامنے رکھے جا چکے ہیں جس پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔پاکستان کب تک صبر، برداشت اور تحمل سے کام لیتا رہے گا۔ اس پر پاکستان کے آخری اقدام سے قبل اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو غور و خوض کرناچاہیے۔
دہشت گردوں کے خلاف جاری اپریشن میں سکیورٹی فورسز کی کامیابیاں اور قربانیاں
May 29, 2024