قارئین! سچ وہ جو نہ صرف بولا جائے بلکہ نظر بھی آئے۔ کسی مبالغہ آرائی یا جانبداری کے بغیر زمینی حقائق کی طرف دیکھا جائے تو بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ حالیہ الیکشن کے بعد ملک کے تمام اقتصادی اعشاریے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ملک میں گزشتہ دو، تین سال کے عرصہ سے مہنگائی، بیروزگاری، اقتصادی بدحالی کی جو لہر جاری تھی اس میں قدرے ٹھہراو¿ نظر آ رہا ہے اور اس بات کے قوی امکانات پائے جا رہے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں معشیت مثبت ٹریک پر چڑھ جائے گی۔
یہ تو تھی زمینی حقائق کی بات۔ اب آتے ہیں تھوڑی سی علمی گفتگو کی طرف۔ تو اس بابت جب اکنامکس اور پولٹیکل سائنس کو ملا کر پڑھا جاتا ہے تو ایک تھیوری جس سے کسی بھی مکتبہ فکر کے لوگوں کا اختلاف ممکن نہیں سامنے آتی ہے کہ کسی بھی ملک کی معشیت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو۔ بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں جب تک یہ سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوتا ا±س وقت تک اس ملک میں اقتصادی ترقی کا پہیہ سٹارٹ ہی نہیں لے سکتا۔ اسی لئے آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بیشتر یورپی ممالک حتی کہ جاپان تک میں جب بھی کسی مسئلے پر سیاسی اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں، پیشتر اسکے کہ اس وجہ سے انکے ملکوں کی معشیت ڈانواں ڈول ہو وہ فوراً نئے الیکشن کال کر لیتے ہیں۔ لیکن اس سباق جب ایک ادنی طالبعلم کی حثیت سے راقم اپنے ملکی حالات اور معاملات پر ایک نظر ڈالتا ہے تو اسے اس تھیوری کے برعکس اس وقت ملکی معیشت اور سیاست دونوں ایک دوسرے کی مخالف سمت چلتی نظر آتی ہے کیونکہ ایک طرف جہاں صاحب نظر ملکی معیشت کو مستحکم ہوتا دیکھ رہے ہیں وہیں پر اہل فکر اس تشویش میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں کہ سیاسی محاذ پر کسی صورت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملک کسی سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سیاسی سطح پر زیر زمین اس قدر لاوہ پک رہا ہے کہ ملک میں کسی وقت بھی کوئی انہونی ہو سکتی ہے۔ اس تناظر اہل فکر موجودہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تناو¿ کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں اور خاص کر سابقہ صدر عارف علوی کے بیان سے بھی ان حالات سے صرف نظر نہیں ہو سکتا۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل فکر کی وہ تشویش جسکی طرف راقم نے اشارہ کیا ہے کیا اسکا حقیقت میں کوئی وجود بھی ہے یا پھر یہ سوشل میڈیا اور کچھ بناسپتی دانشوروں کی طرف سے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش ہے۔
سیاست پر نظر رکھنے والوں کے نزدیک سیاسی محاذ پر اس وقت ملک کو جن تین ایشوز نے غیر یقینی کی طرف دھکیل رکھا ہے ان میں سر فہرست عمران خان کی گرفتاری اور حالیہ الیکشنز میں مبینہ فارم 45 اور 47 کے قصوں کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے ممکنہ احتجاج ہے۔ دوئم حکومتی ذمہ داریوں میں حصہ بقدر ج±ثہ مولانا فضل الرحمان کا احساس محرومی کی وجہ سے واویلا اور سوئم حالیہ دنوں میں یکایک عدلیہ کے کچھ ارکان کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مخصوص رویہ اور کچھ الزامات ہیں۔ ان حقائق پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس حقیقت سے کوئی اختلاف ممکن ہی نہیں کہ عمران خان مقبولیت کے لحاظ سے آج بھی عوام کے دلوں پر راج کرتا واحد لیڈر ہے لیکن اسکے ساتھ جس سب سے بڑی ٹریجڈی کا اسے سامنا کر پڑ رہا ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں تنظیمی صلاحیتوں کا اس وقت قحط الرجال پایا جاتا ہے اور کسی کو کچھ پتا نہیں کہ اس وقت کونسی مرکزی قیادت فعال ہے اور پارٹی کی کیا پالیسی لائن ہے جسکا نتیجہ آج آپ سب کے سامنے ہے کہ فروری سے لیکر آج جون سٹارٹ ہونے کو ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے ابتک کسی بڑے پاور شو یا پاور سٹرگل کا مظاہرہ نہیں ہو سکا لہٰذا سیاسی پنڈت اس خطرے کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے بلکہ حکومتی ہمدردیاں رکھنے والے تو اب اشاروں کنائیوں میں تمسخر کی حدوں کو بھی چھونے لگے ہیں۔
جہاں تک رہ گئی مولانا فضل الرحمان کی بات تو سیاسی نباض اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مولانا کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے صرف ایک دو وزارتوں اور ایک دو کمیٹیوں کی چیرمین شپ ہی کافی ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں اعلیٰ عدلیہ کے روّیوں میں اس تغیر کی طرف جس نے ہر ذی فکر کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ رکھا ہے۔ کیونکہ عدالتی روّیوں پر کچھ بھی لکھنا اور بولنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے اس لیے انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے راقم یہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہے کہ نہ یہ اسکی ذاتی رائے ہے اور نہ یہ اسکے ادارے کا خیال بلکہ جو بات اسکے مشاہدے میں آ رہی ہے وہ عام لوگوں کا عمومی تاثر ہے کہ جن تمام خدشات کا کچھ عدالتی ارکان کی طرف سے اظہار کیا جا رہا ہے وہ آج کے رپورٹڈ معاملات نہیں بلکہ ایسے معاملات کا تسلسل ماضی بعید سے چلا آ رہا ہے اور انکا اس وقت ا±چھالنا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی طرف اشارہ دیتا ہے۔ لکھنے اور اظہار کیلئے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن قدغن ، قدغن ہی ہوتی ہے۔ جتنی احتیاط برتی جائے بہتر ہوتی ہے۔ قصہ مختصر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبینہ تناو¿ کی کیفیت ملکی سیاست پر کس قدر اثرانداز ہو سکتی ہے تو جواب بڑا سادہ ہے کہ اس ملک کے ماضی کی تاریخ موجودہ خدشات جو آج ایک عام قاری اپنے ذہن میں محسوس کر رہا ہے اس سے مختلف نتائج کی گواہی دیتی ہے اور پھر جب انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ رویہ اور جھکاو¿ دیکھتا ہوں تو پھر ملک میں سیاسی عدم استحکام کی تھیوری خدشات اور مفروضوں تک محدود رہتی دکھائی دیتی ہے تاآنکہ نون لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ کی طرف سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جائے جو انکے لیے خودکش دھماکہ ثابت ہو جسکے بہرحال کافی حد تک امکانات موجود ہیں۔