آمش ویلج کی یادیں

اس ملک مےں کوئی قا و اور کوئی سسٹم ہےں ہے۔ جس کا جو جی کرتا ہے وہ کر ا ہے۔ مہ گائی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ ا تظار کر رہے تھے۔ حکومت مےں ئے صاحب اقتدار آئےں گے تو ا کے حالات بدل جائےں گے مگرگھوم گھام کر وہی چہرے سام ے آگئے ہےںاےک تو گرمی بہت ہے اوپر سے لوگوں کو ہےٹ سٹروک ہو رہا ہےا کے پاس ات ے روپے ہےں ہےں کہ روٹی تو اےک طرف اپ ا علاج ہی کروا سکےں۔ بڑے بڑے تاجروں کے علاوہ چھوٹے پےما ے مےں بز س کر ے والے بھی اپ ے مذہب اور قول و فعل مےں سچے ہےں ہےں جھوٹ،فرےب اور بے اےما ی سے چےزےں فروخت کر رہے ہےںغرےب عوام پس رہے ہیں
بعض لوگ اپ ے مذہب کے اصولوں کے معاملے میں بڑے سچے ہیں چاہیں وہ کرسچ ہی کیوں ہ ہوں۔ مجھے ایک پرا ا واقع یاد آگیا جب میرا امریکہ کی چھوٹی سی سٹیٹ ڈیلاوئےر میں قیام تھا ۔ن
ایک روز میں ے ٹیلی وےژ پر ایک پروگرام دیکھا ۔ عدالت کا سی دکھاےا جا رہا تھا۔ آمش میاں بےوی کے بچے کے قاتل پکڑے گئے ۔ آمش میاں بیوی سے وکیل پوچھ رہا تھا۔ ےہ آپ کے بچے کے قاتل ہیں ا کی سزا آپ تجویز کریں تا کہ ا کو بھرپور سزا دی جائے۔
آمش مرد کی لمبی ´سی داڑھی تھی او ر پرا ی طرز کا لباس زیب ت کیا ہوا تھا۔ اس کی آ کھوں میں بے بسی کے آ سو تھے ۔ اس کی بیوی ے سر پر رومال با دھا ہوا تھا اور کالا گاﺅ ما فراک پہ ا ہوا تھا اور سر سے پاﺅں تک ڈھکی ہوئی تھی۔ ہو ٹ خشک اور چہرے پر ویرا ی اتری ہوئی تھی اور اس کی آ کھوں کے گوشے آ سوﺅں سے بھےگے ہوئے تھے۔ چہرے پر ایک خاص تقدس چھایا ہوا تھا ۔
 وکیل ے دوبارہ پوچھا تو اس ے اداس گاہوں سے اپ ے شوہر کو دیکھا اس کی آ کھیں اشک بار تھیں۔ دھیرے سے آہ بھرتے ہوئے بولی۔
 ا لوگوں ے اللہ کے دربار میں ایک روز جا ا ہے۔ میرا اللہ ہی ا کا حساب لے گا۔ میں ے ا کو معاف کیان
یہ بھول گئے تھے کہ ز دگی چ د روز کی ہے۔ن
اس کی باتیں س کر وکیل ے اس کے شوہر سے پوچھا ۔
 آپ کا کیا خیال ہے سزا ہو ی چائیے۔ن
وہ دکھ سے بولا سزا دی ا اللہ کا کام ہے۔ اس کی اس بات سے ا صرف بیا لی ے والا چو کا بلکہ میں خود حیرا ہوگئی تھی کہ یہ کس مٹی کے ب ے ا سا ہیں جو اپ ے بچے کا بدلہ بھی ہیں لے رہے۔
جو لوگ بھی ٹی وی دےکھ رہے تھے اور ےہ توقع کر رہے تھے یہ میاں بیوی ا ملزموں کو ضرور سزا دلوائیں گے۔ مگر ا ہوں ے ا کو معاف کر دیا دوسرے د میں آمش ویلج جو ڈیلا ور شہر والم گٹ سے پو ے دو گھ ٹے کی ڈرائےو پر آمش وےلج چلی گئی۔ جس کے بارے میں س رکھا تھا ۔ وہ اپ ے مذہب کے مطابق وہ ہی پرا ا رہ سہ رکھا ہوا ہے۔ ا کے گھروں میں بجلی ہیں ،پا ی کے ل ہیں، کوئی آسائیش تک ہیں ۔ ٹریکٹروں کی جگہ ابھی تک ہل چلاتے ہیں۔ ہمیشہ کالے لباس میں ظر آتے ہیں۔ ےہ س کر مجھے تجسس پےدا ہوا کہ آمش ویلج جا کروہاں ا کا رہ سہ دےکھوںوہاں جاکر میری حیرت گم ہوگئی ۔ دیکھا تو چاروں طرف کھیت جس پر ہل چل رہے تھے ۔ گھروں کے باہر بھیڑ بکریاں چارہ چر رہی تھیں۔ خواتی ے کالے لباس میں اپ ے سروں کو سفید رومال سے ڈھا پا ہوا تھا۔ ا کے جسم کا کوئی ایسا حصہ ہیں تھا جو ظر آئے۔ اسی طرح مرد بھی کالے لباس میں پاﺅں سے گے اور لمبی لمبی داڑھیوں والے تھے۔ن
گاڑی کی سواری کی بجائے تا گوں میں گھوم پھر رہے تھے۔ وہاں جاکر احساس ہوا جیسے صدیوں پرا ے وقت کو دیکھ رہی ہوں۔ زما ہ بدل چکا ہے مگر وہ اپ ے مذہبی اصولوں کے مطابق بدلتے زما ے کی پروا کئے بغیر اپ ی ڈگر پر چل رہے تھے۔ ا کو کسی کی پرواہ ہیں تھی ۔ وجوا خوبصورت لڑکیاں بھی اسی لباس میں ظر آرہی تھیں یع ی اپ ے مذہب کے پکے اور سچے آمش تھے۔ ا کو دیکھ دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ ایک ہم مسلما جو ام کے مسلما ہیں۔ ا گریز تو چلا گیا مگر تمام شا یاں مسلما وں کے لئے چھوڑ گیا ۔ اگر کرسچ اپ ے مذہب میں ات ے سچے ہیں تو ہم لوگوں کو بھی اسی طرح اپ ے اصولوں پر سچا ہو ا چاہئے ۔ لےک مےں ے اپ ے ملک مےں کم ہی لوگوں کو سچاپاےا ہے ج کو اپ ی موت ےاد ہے

ای پیپر دی نیشن