ہر صحافی کی طرح میری بھی یہ خواہش تھی کہ ریٹائرہوجانے کے بعد اپنی ڈائری میں لکھے چند واقعات اور موضوعات پر غور کرتے ہوئے کتاب کے بعد کتاب لکھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجا?ں۔ میری لکھی کتابیں ’’دھماکہ خیز انکشافات‘‘ کا مجموعہ تصور ہوں۔ ہائے افسوس رزق کی ضرورت نے روزانہ کالم لکھنے اور اب ٹی وی پر آواز لگانے سے مہلت ہی نہیں دی۔مہلت مل جاتی تو شاید میری پہلی یا دوسری کتاب فقط اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتی کہ مئی 1998ء میں بھارت اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔
قارئین کی اکثریت میری خواہش جان کر حیران محسوس کررہی ہوگی۔ نظر بظاہر 1998ء کے مئی میں بھارت کی واجپائی سرکار نے ’’اچانک‘‘ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد دنیا کو یہ بتانا چاہا کہ اسے اب ایک ایٹمی قوت شمار کیا جائے۔ ہمارے ازلی کہلاتے دشمن نے جب یہ دھماکہ کردیا تو ان دنوں کی نواز حکومت اس کا جواب دینے سے گھبراتی محسوس ہوئی۔ اسے جوابی دھماکے کرنے کو اکسانا پڑا اور یوں ’’حساب برابر ہوگیا‘‘۔
اس کالم کا دوسرا پیرا پڑھ لیا ہے تو شاید ’’نظر بظاہر‘‘ کا استعمال بھی آپ کی نگاہ میں کھٹکا ہوگا۔ اکثر معاملات پر لکھتے ہوئے میں یہ لفظ لکھنے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اہم ترین ریاستی فیصلے ’’اچانک‘‘ نہیں ہوتے۔ ان پر عملدرآمد سے پہلے بہت سوچ بچار اور ہوم ورک ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم عامی بے خبر رہتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اہم ترین معاملات کے بارے میں بے خبری کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں امریکہ کی طرح چند دہائیاں گزرجانے کے بعد کلیدی دستاویزات کو پبلک نہیں کیا جاتا۔
پیر کے دن مثال کے طورپر حمود الرحمن کمیشن کا بہت چرچارہا ہے۔ یاد رہے کہ اس کمیشن کی رپورٹ سرکاری طورپر ہماری جانب سے منظر عام پر نہیں لائی گئی تھی۔ اس کے چند اقتباسات میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے بھارت کے مشہور انگریزی جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ میں چھپے تھے۔ الزام یہ لگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ایک قریب ترین ساتھی نے سرکاری ریکارڈ سے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی ایک کاپی ’’بوقت ضرورت‘‘ دنوں کیلئے تیار کروا کے بیرون ملک کسی محفوظ مقام پر رکھوادی تھی۔ اس کے چند حصے جنرل ضیا کے دور میں برطانوی اخبارات کے ذریعے منظر عام پر لائے گئے۔ بعدازاں ایسا ہی واقعہ جنرل مشرف کے دور میں بھی دہرایا گیا۔جنرل مشرف کے دور میں جب بھارتی میڈیا میں مذکورہ رپورٹ کے چرچے ہوئے تو حکومت نے اسے پبلک کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیر کے دن بانی تحریک انصاف کو اس کی یاد ستائی اور عاشقان عمران نے مذکورہ رپورٹ کو اپنی ترجیح کا بیانیہ پھیلانے کیلئے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔
اپنے موضوع سے بھٹک جائوں گا۔ اہم ترین ریاستی فیصلوں کے ’’اچانک‘‘ نہ ہونے پر اصرار کی بدولت میں بطور رپورٹر 1998ء سے اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا ہوں کہ بھارت نے اس برس کے مئی میں ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔
ٹھنڈے دل سے سوچیں تو آپ کو یہ سوال یقینا فطری سنائی دے گا۔ فرض کیا بھارت نے اگر خود کو ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہی ثابت کرنا تھا تو وہ یہ پیغام 1974ء کے برس ہی اندراگاندھی کی حکومت کے دوران دے چکا تھا۔ پاکستان کے لئے وہ دھماکہ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر 1998ء کے دھماکوں سے زیادہ خطرناک تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ بھارت نے دیدہ دلیر جارحیت کے ذریعے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کرواکر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے حوالے کردیا تھا۔ اس کی بدولت بنگلہ دیش قائم ہوا تو اندرا گاندھی نے نہایت رعونت سے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال کی لہروں کے سپرد کردیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 1974ء میں ہوئے دھماکے کے ذریعے اندراگاندھی نے دنیا کو بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بھارت اب جنوبی ایشیاء کی بالاتر قوت بن گیا ہے۔ اسے مذکورہ خطے کا ’’چودھری‘‘ تسلیم کیا جائے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مگر اس پیغام کے روبرو سرنگوں ہونے سے انکار کردیا۔ پاکستان کو بھی ایٹمی قوت بنانے کیلئے بلکہ بطور قوم گھاس کھانے کا عہد باندھ لیا اور 1977ء کا آغاز ہوتے ہی دنیا یہ جان چکی تھی کہ وہ اپنا عہد نبھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان نے ایٹم بم تیار کرنے کو درکار تمام تر مہارت حاصل کرلی ہے۔ اس مہارت کا حصول بھٹو صاحب کی عالمی قوتوں سے کشیدگی کا کلیدی سبب ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے بعد آنے والے حکمران بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ اسے مزید جاندار بنانے کی لگن میں مصروف رہے۔ اس لگن کے بغیر 28مئی 1998ء کے روز جوابی دھماکے کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔
بہرحال میرا سوال اپنی جگہ برقرار ہے اور وہ یہ کہ بھارت تو 1974ء ہی میں خود کو ایٹمی قوت کا حامل ملک ثابت کرچکا تھا۔ اسے 1998ء میں ایک بار پھر دنیا کو یہ حقیقت یاد دلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس سوال کا جواب بھارت میں تواتر سے رپورٹنگ کی خاطر اپنے قیام کے دوران ڈھونڈتا رہا ہوں۔ اس موضوع پر کتاب لکھنے کی تمنا میں جو نوٹس لکھ رکھے ہیں ان سے یہ کالم لکھنے سے قبل سرسری رجوع کیا ہے۔ کالم میں تفصیلات بیان کرنا ممکن نہیں۔ مختصر ترین جواب یہ ہے کہ بھارت نے 1990ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان میں گھیر کر تباہ کرنے کے بعد اب امریکہ ہمارے یار چین کی جانب توجہ موڑتے ہوئے اسے اپنے برابر کی عالمی قوت بننے سے روکنے کی تیاری کررہاہے۔ مذکورہ مقصد کے حصول کیلئے اسے ایشیاء میں اتحادی درکار ہیں۔پاکستان اس ضمن میں اس کا اتحادی ہو نہیں ہوسکتاکیونکہ 1960ء کی دہائی سے ’’چین اپنا یار اور اس پر جان بھی نثار‘‘ ہوچکا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نہایت کائیاں سیاستدان تھا۔ وہ 1951ء سے بھارت کی پارلیمان کیلئے مسلسل منتخب ہوتا رہا۔ بطور رکن پارلیمان اسے ہمیشہ خارجہ امو پر نگاہ رکھنے والی پارلیمانی کمیٹی میں بہت اہمیت دی گئی اور وہ مذکورہ کمیٹی کا رکن ہوتے ہوئے چین پر کڑی نگاہ رکھتا رہا اور ان تمام سفارت کاروں سے مسلسل رابطے میں بھی رہا جو دلی کی جانب سے بیجنگ میں تعینات ہوتے رہے تھے۔ 1998ء کے برس واجپائی نے یہ بھانپ لیا کہ امریکی صدر کلنٹن اس کے ملک سے دوستی بڑھانے کی خواہش کے باوجود اسے چین کے خلاف تزویراتی حوالوں سے استعمال کرنے کو آمادہ نہیں۔ اس کی مخالف ری پبلکن پارٹی مگر اس ضمن میں کسی بھی حد تک جانے کو آمادہ ہوگی۔ آنے والے وقت کیلئے لہٰذا 1998ء میں دنیا کو ایک بار پھر بھارت کی ایٹمی قوت وصلاحیت یاد دلائی جائے۔
موصوف کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کے فیصلے نے مگر دنیا کو یہ حقیقت بھی یاد دلادی کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان نام کا ایک ملک بھی ہے۔ وہ اور بھارت ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں اور پاکستان نے جوابی دھماکوں کے ذریعے بھارت کو چین کے مقابلے کی قوت کا حامل ملک ہی نہیں رہنے دیا۔ اپنے وجود اور اہمیت کا احساس بھی دلایا۔ گلی کی زبان میں بھارت کو یاد دلایا کہ ہم سے نبٹ لو تو چین سے مقابلے کی بڑھک لگائو۔ ایک کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے واجپائی نے مذکورہ پیغام سمجھنے میں دیر نہ لگائی۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے بلکہ ’’دوستی بس‘‘ میں بیٹھ کر لاہور آگیا۔ پاکستان اور بھارت یوں دنیا کے روبرو ایٹمی قوت کے حوالے سے ایک دوسرے کے مساوی نظر آنے لگے۔ اس مقام کے حصول کے بعد پاکستان مگر داخلی بحران میں مبتلا ہوجانے کے بعد افغانستان میں الجھ گیا۔ ہماری اس ملک پر کامل توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کو امریکہ جیسے ممالک سے ’’جائز‘‘ تسلیم کروالیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مگر اب بھی عالمی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔