میں تو بنوں گا شیخ مجیب۔ 

گریٹ خان صاحب یوں تو دو سال سے قوم کو ایک اور سقوط ڈھاکہ سے ڈرا رہے تھے لیکن یوم تکبیر پر انہوں نے جو ٹویٹ کیا، اس میں کچھ زیادہ ہی زور تھا۔ انہوں نے یحییٰ خان کی تصویر لگائی اور ساتھ ہی نہ جانے کس خیال سے حافظ صاحب کی تصویر بھی لگا دی۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ وہ حافظ صاحب کو یحییٰ خاں بننے کا پیغام دے رہے ہیں۔ یعنی یہ کہہ رہے ہیں کہ آئو‘ سقوط ڈھاکہ کا کھیل کھیلیں، تم یحییٰ بنو، میں مجیب بنتا ہوں۔ اور یہ بھی کہ اگر تم نے یحییٰ نہیں بننا تو نہ بنو، میں تو پھر بھی مجیب بنوں گا، میں فریضہ ادا کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ 
حافظ صاحب تو یحییٰ خاں نہیں بنیں گے اب جو کرنا ہے خان صاحب ہی کو کرنا ہے۔ لیکن ، ان میں اور شیخ مجیب میں بہت فرق ہے۔ شیخ مجیب کا معاملہ کچھ اور ہی تھا، گھڑی چوری کا تو بالکل ہی نہیں تھا اور 150 ملین پائونڈ کی رقم کا تصور تو شیخ مجیب کے باپ دادا نے بھی ، کبھی خواب میں بھی نہیں کیا ہو گا۔ 
____
گریٹ خان کی ’’مجیب بنوں گا‘‘ والی ٹھمری میں کئی پوشیدہ سْر ایسے ہیں کہ عام شائقین شاید نہ سمجھ سکیں لیکن پرانے راگ رسیا سمجھ گئے۔ 
ملاحظہ فرمائیے۔ سقوط ڈھاکہ ممکن ہی نہیں تھا اگر بھارت اپنی فوج کا مشرقی پاکستان پر حملہ نہ کرتا۔ بھارتی فوج نہ آتی تو جو بھی برا یا بھلا ہوتا، سقوط ڈھاکہ نہیں ہو سکتا تھا۔ 
خان صاحب ’’مجیب بنوں گا‘‘ کی راگنی بار بار گا کر کون سا مافی الضمیر ادا کرنا چاہتے ہیں، ان کے من میں کون سی کامنا اور آشا چھپی ہوئی ہے، کوئی اور سمجھے نہ سمجھے، نریندرا مودی ضرور سمجھ گئے ہوں گے۔ اِچھّا تو ان کی بھی اندرا گاندھی بننے کی پوری نہیں ہوئی۔ لیکن زمانے بدل گئے، ماحول بدل گئے، ضرورتیں اور مجبوریاں بدل گئیں۔ مودی بہرحال ایک بار دل ہی دل میں ہنسے تو ضرور ہوں گے۔ 
برسبیل تذکرہ ، بھارتی تجزیہ کار ادارے بتا رہے ہیں کہ الیکشن میں مودی یا تو ہار جائیں گے یا پھر کمزور پوزیشن پر جیت جائیں گے۔ گویا جیتنے کی صورت میں بھی مودی باگھ شیر کے بجائے باگڑ بلّے کے روپ میں نظر آئیں گے۔ 
باگڑ بلّے کسی کی من کی کامنا کیا پوری کریں گے۔ 
ادھر یک لخت ایک کایا اور بھی کلپ ہوئی اور وہ یہ کہ پوری کی پوری پی ٹی آئی اور اس کا سوشل میڈیا ملک کے مایہ ناز لیکن مفرور پراپرٹی ٹائیکون کی مدح سرائی میں مصروف ہو گیا۔ 
مایہ ناز لیکن مفرور پراپرٹی ٹائیکون نے ایک بیان جاری کیا کہ مجھ پر دبائو ڈالا جا رہا ہے لیکن میں مر جائونگا مگر دبائو قبول نہیں کروں گا۔ اس کے جواب میں پی ٹی آئی نے یہ کہا کہ مایہ ناز مفرور پر گریٹ خان کے خلاف 190 ملین پونڈ چوری کے مقدمے میں سلطانی گواہ بننے کا دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ چنانچہ ایک کورس کی شکل میں پہلے تو یہ راگ درباری الاپا گیا کہ واہ خان صاحب ، آپ نے کمال کر دیا، کیسے کیسے ٹائیکونوں کو انقلابی بنا دیا۔ 
پھر ٹائیکون کی بہادری، سخاوت، نیک دلی کے ڈنکے بجنے لگے جو تادم تحریر بج رہے ہیں، ایسے ڈنکے کہ نوشیرواں عادل کی یاد محو ہو گئی، اس کی جگہ مفرور ٹائیکون نے لے لی۔
 انقلابی مفرور جھک کر دیکھ لے، ریفرنس تو پھر بھی چلے گا۔ ایسا ہی سنا ہے۔ 
 واہ رہے گردش زمانہ، کیسے کیسے انقلابیوں کو مفرور پراپرٹی ٹائیکون کے دربار کا قصیدہ خواں بنا دیا۔ 
____
ویسے مفرور ٹائیکون سے پی ٹی آئی کی ارادت مندی پرانی ہے۔ مفرور ٹائیکون نے جب وہ مفرور نہیں ہوا تھا اور جب خان کی حکومت تھی، ہیروں کا ایک اربوں روپے کا ہار ’’مرشدانی‘‘ کی نذر کیا تھا اور مرشدانی نے اس کے عوض کے پی کے میں مفرور کی غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کو گرین سگنل کا پرشاد دیا تھا۔ 
____
محترمہ زرتاج گل نے کیا حق سچ بات کی ہے، 
ارے وہی حق کی ضمانت کے لئے ابراہیم خاں صاحب بھاگم بھاگ پنڈی کی مصروفیات کو ترک کر کے رات گئے پشاور گئے تھے اور پہلے تو محترمہ کے لیئے چرسی تکّے ، شاہی چرغے، مشروبات اور کافی وغیرہ منگوانے کا پربندھ کیا، پھر انہیں ضمانت دی اور پولیس کو حکم دیا کہ انہیں اب گھر چھوڑ کر آئو۔ ہاں تو انہی محترمہ نے کہا ہے کہ گریٹ خان نے ہر فورم پر حق کا مقدمہ لڑا۔ 
واقعی، سو فیصد سچ اور اتنا ہی حق۔ خان نے آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم پر پاکستان کا مقدمہ لڑا اور آئی ایم ایف کو روکا کہ قرضے دے کر پاکستان کی عادات نہ بگاڑے۔ یہی مقدمہ اس نے عالمی بنک کی عدالت میں بھی لڑا۔ یورپی یونین میں جا کر جان لڑا دی کہ پاکستان کی تجارتی مراعات بند کرو تاکہ پاکستان اپنے پا?ں پر کھڑا ہو سکے۔ امریکہ میں کتنا زور لگایا کہ وہ پاکستان پر عالمی تجارتی پابندیاں لگائے اور لگوائے۔ 
خان یہ سارے کیس ہار گیا تو یہ الگ بات ہے۔ خان نے زور تو پورا لگایا، کس کیلئے۔ ظاہر ہے پاکستان کیلئے۔

ای پیپر دی نیشن