پاکستان میں شفاف انتخابات کےلئے مستند انتخابی فہرستوں کی تیاری ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ بنی رہی ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں انتخابی فہرستوں میں تیس ملین کے قریب جعلی ووٹوں کے اندراج کی تائید سرکاری سطح پر دبے لفظوں میں کی گئی لیکن عوامی سطح پر اِسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنےوالی چند جماعتوں نے اِسے الیکشن چرانے کے مترادف قرار دیا ۔ حیرانی کی بات ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور صدارت میں انتخابات میں بظاہر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کےلئے یہ تمام تر منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن انتخابات سے چند روز قبل آرمی چیف جنرل کیانی کی جانب سے عسکری افسران کو انتخابی عمل میں مداخلت سے گریز کرنے کے سخت ترین احکامات جاری کئے جانے کے باعث انتخابی عمل میں کافی حد تک بہتری آئی تھی اور صدر جنرل پرویز مشرف کی خواہشات کے برعکس قدرے عوامی پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے باعث بالآخر صدر مشرف کو منصب صدارت سے مستعفی ہو کر ملک چھوڑ کر جانا پڑا ۔ 2008 کے انتخابات سے قبل دہشت گردی کی ایک بہیمانہ واردات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو صدر پرویز مشرف کی جگہ آصف علی زرداری منصب صدارت پر فائز ہوئے لیکن صد افسوس عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتے چلے گئے جس کے سبب صدر زرداری کو مقتدر میڈیا حلقوں اور عوامی سطح پر صدر جنرل پرویز مشرف کی اضافت سے ہی تعبیر کیا گیا ۔ دریں اثنا ، الیکشن کمیشن آف پاکستان جو آئینی طور پر ہر سال انتخابی فہرستوں کو اغلاط سے پاک اور up-to-date کرنے کا پابند ہے، نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو کمال خوبی سے پورا نہیں کیا چنانچہ سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابی فہرستوں کو اغلاط سے پاک اور نئے ووٹوں کے اندراج کرنے کے احکامات جاری کئے گئے لیکن یہ کام قدرے بے دلی سے سرانجام دیا گیا جو ناقابل فہم ہے البتہ نئے غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کے الیکشن کمیشن کا چارج لینے کے بعد انتخابی فہرستوں میں درستگی اور انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے حوالے سے کام میں تیزی ضرور آئی ہے جو ہر لحاظ سے احسن اقدام ہے ۔
اِس اَمر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انتخابات میں صرف وہی پاکستانی انتخابی عمل میں ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں جن کے پاس نادرا کے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ موجود ہیں ۔ اِس لحاظ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی فہرستوں کی تیاری میں کسی حد تک نادرا کی کارکردگی پر بھروسہ کرتا ہے ۔ ماضی میں ایوان صدر میں سیاسی سیل کی موجودگی میں مقتدر سیاسی حلقے جعلی شناختی کارڈ بنانے کے حوالے سے نادرا کے کام سے سخت نالاں رہے ہیں جس کی ایک مثال گذشتہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر انتخابی فہرستوں میں جعلی ووٹوں کے اندراج سے بھی محسوس کی جا سکتی ہے لیکن جب سے بے داغ شخصیت کے مالک نئے چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین نے الیکشن کمیشن کا چارج لیا ہے تو صورتحال میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے۔ البتہ اُنکی آمد سے قبل انتخابی فہرستوں کی تیاری کے حوالے سے ملک کے مقتدر سیاسی حلقوں میں کافی چہ مہ گوئیاں ہو رہی تھیں ۔ یہ درست ہے کہ جہاں 18 برس کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں کے ووٹوں کا بخوبی اندراج کیا گیا وہاں اِس اِمر پر بھی حیرت کا اظہار کیا گیا کہ بالخصوص صوبہ سندھ میں نوجوانوں کے نئے ووٹوں کی شمولیت کے باوجود مجموعی طور پر ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بجائے کل ووٹوں میں کمی کا عنصر دیکھنے میں آیا ہے، آخر ایسا کیوں ہے ؟ سندھ کے ووٹوں میں اِس کمی کے رجحان کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ نادرا نے یکطرفہ طور پر سندھ میں کئی عشروں سے رہنے والے پنجابی ، پشتون ، سندھی اور بلوچی ووٹوں کا اندراج اُن کے مستقل پتہ پر کر دیا ہے جس کی باز گشت ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طرف سے سپریم کورٹ میں اعتراض کی شکل میں بھی سننے میں آئی ہے ۔ چنانچہ اِسکے بارے میں وثوق سے تو نہیں کیا جا سکتا کی کیا ایسا سندھ میں ایوان صدر کے اشارے پر بالخصوص کراچی میں ایک مخصوص حکومتی سیاسی جماعت کے مفاد میں کیا گیا ہے یا اِسکی کوئی اور وجہ ہے ؟
البتہ درج بالا تناظر میں نادرا کے موجودہ چیف طارق ملک جو مقتدر حلقوں کے مطابق اِس منصب پر فائز ہونے سے قبل صدر زدراری کے قریبی حلقوں میںمتحرک رہے ہیں جنہیں پہلے مرحلے میں نادرا کا ڈپٹی چیف اور کچھ عرصہ قبل مکمل انچارج بنا دیا گیا ہے نے گذشتہ روز اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ نئی انتخابی فہرستوں میں 48 لاکھ غیر مصدقہ ووٹ جن میں کچھ ارکان پارلیمنٹ ، ججوں اور میڈیا اینکر پرسنز کے علاوہ دیگر لوگ شامل ہیں ، دراصل اصلی ووٹ ہیں ۔مختلف مستقل اور موجودہ پتہ کے حوالے سے شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کے سلسلے میں اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اہل کاروں کے گھر گھر جا کر اِن افراد کی تصدیق کے دوران اِن پتوں پر نہ پائے جانےوالے افراد کے ووٹ اُنکے مستقل پتہ پر بنا دئیے گئے ہیں جبکہ اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید اور امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب منور حسن، نادرا چیف کے بیان کی تائید نہیں کرتے بلکہ وہ الزام عائدکرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن یا نادرا کے اہلکاروں نے گھر گھر جا کر تصدیق کرنے کے بجائے ایک مخصوص سیاسی گروپ کے دفاتر میں بیٹھ کر یہ فہرستیں ترتیب دی ہیں ۔کچھ افراد کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نادرا کے اہلکاروں نے اپنے فرائض بخوبی سرانجام نہیں دئیے۔ بہت سے گھروں میں ووٹ کے اندراج کے فارم تقسیم کرنے کے بعد شمار کنندگان نے پُر کئے ہوئے فارم واپس لینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور اگر کسی نے متعلقہ یونین کونسل میں جا کر یہ فارم جمع بھی کرائے تو نہ تو مختلف حیلے بہانوں سے اُنہیں ایسے کسی فارم کی رسید دی گئی اور نہ ہی اِن کے ووٹوں کا اندارج ووٹر فہرستوں میں کیا گیا چنانچہ نادرا کے چیف کو اِس اَمر کی بھی وضاحت کرنی چاہئے کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق کئی عشروں سے موجودہ پتہ پر رہنے والے افراد کے ووٹوں کے اندراج کےلئے یکطرفہ صوابدیدی اختیارات مستقل پتہ پر ووٹوں کے اندراج کےلئے کیونکر استعمال کئے گئے جبکہ اِس اختیار کو اِن ووٹوں کے موجودہ پتہ پر اندراج کےلئے استعمال کرنا زیادہ احسن اقدام تھا ۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نئے انتخابات سر پر ہیں ، ملک میں بالخصوص کراچی میں لاءاینڈ آرڈر کی پوزیشن خراب ہی نہیں بلکہ بدتر ہے ۔ کراچی ، پاکستان کا پہلا دارلحکومت ، سندھ کاموجودہ صوبائی دارلحکومت اور میٹرپولیٹن شہر ہے جہاں ملک کے ہر حصے سے لوگ آکر آباد ہو گئے ہیں۔ کراچی میں مہاجر اکثریت کے علاوہ اندرون سندھ ، اندرون پنجاب، اندرون خیبر پختون خواہ ،اور اندرون بلوچستان کے علاوہ دیگر علاقوں کے لوگ بھی آباد ہیں جن میں ایک کثیر تعداد غیر قانونی طور پر رہائش رکھنے والے بنگلہ دیشی اور برمی باشندوں کی بھی ہے لیکن حکومت نے گذشتہ کئی برسوں سے غیرملکی باشندوں کو اُن کے ملکوں میں واپس بھیجنے اور کراچی میں امن و امان بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے ۔ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انتخابات کے موقع پر کچھ سیاسی جماعتوں کے عسکری گروپ انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں جن کے بارے میں سپریم کورٹ کا بھی کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں عسکری گروپوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عسکری گروپ شفاف انتخابات پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں جمہوریتوں میں شفاف انتخابات میں اغلاط سے پاک انتخابی فہرستیں، شدت پسندی سے پاک انتخابی مہم اور بنیادی طور پر امن عامہ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ کیا انتخابی ماحول کو پُرامن بنانے کےلئے کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم چلائی گئی ہے ۔ صد افسوس ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کے بجائے ملک بھر میں ممنوعہ بور کے اسلحہ کی بھر مار کر دی گئی ہے ۔ سندھ میں غیر قانونی اسلحہ کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ کا میڈیا میں یہ بیان کہ سندھ میں دس لاکھ اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں معنی خیز ہے۔ اسلحہ کی بھر مار پُرامن اور شفاف انتخابات میں رکاوٹ بن بن سکتی اور کیا الیکشن کمیشن موثر طور پر اِس کا تدارک کر سکتا ہے ؟ بظاہر سیاسی جماعتوں کے اسلحہ سے لیس عسکریت پسند گروپوں کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کو پُرامن اور شفاف الیکشن کےلئے نہ صرف یہ کہ سیاسی جماعتوں کےلئے جاری کئے گئے کوڈ آف کنڈکٹ پر سختی سے عمل کرانا چاہئیے بلکہ کسی بھی حلقے میں مسلح افراد کی موجودگی اور ووٹروں کو ہراساں کرنے کی شکایات پر متعلقہ سیاسی گروپوں کو بلند آواز میں اچھائی کا پیغام دینے کےلئے ایسے حلقے کے انتخاب کو ہی کلی طور پر کالعدم قرار دے کر نیا انتخاب کرا نا چاہئے ۔