مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کا دکھ آج بھی ہے : جاوید ہاشمی
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
باغی ہاشمی نے انتہائی مردانگی، جگر داری، بہادری، شجاعت، شیردلی، بے باکی اور استقلال سے آمریت کا مقابلہ کیا، اس کے بدلے مسلم لیگ (ن) نے انہیں سونے کے ساتھ تولا اور 4 نشستوں سے ٹکٹ جاری کئے، ہاشمی کی ہر بات کو ترجیح دی لیکن اسکے باوجود وہ ”بغاوت“ کر گئے۔ 23 سالہ رفاقت کا رشتہ توڑنے کا لازمی طور پر دکھ ہونا چاہئے۔ ہاشمی جی بہتر ہے کہ آپ اپنی پہلی سٹوڈنٹس والی جماعت پیپلز پارٹی میں چلے جائیں اب وہاں بھٹو نہیں زرداری خاندان موجود ہے۔ عمر کی ڈھلتی شامیں پرانی رفاقتوں کو سمیٹنے اور چھوٹی موٹی تلخیوں کا سینہ چاک کرنے کیلئے ہی ہوتی ہیں۔ لیکن یاد رکھنا اگر اب تحریک انصاف سے آپ نے بغاوت کی تو وہاں کے نوجوان ووٹر یہی کہیں گے ”اک بھگوڑا آدمی ہاشمی ہاشمی“ کیونکہ پیپلز پارٹی میں لڑائی ہوئی، (ن) لیگ میں بھی ”اِٹ کھڑکا“ کر کے یوسف بے کارواں کا حصہ بنے، اب چوتھی جگہ تو (ق) لیگ ہی ہے یا پھر رجوع کر لیں کیونکہ خلع والی حجت تو پوری ہو چکی ہے۔ ہاشمی کے دکھ والے دکھڑے کو سامنے رکھ کر ہم نصیبو کی زباں میں یوں ہی کہیں گے :
بچھڑن بچھڑن کردا ایں
جدوں بچھڑیں گا پتہ لگ جاﺅ گا
اب ہاشمی جی کو پتہ لگ چکا ہے۔ قطار میں لگے احباب نصیبو کے گانے کو ذرا سُن لیں تو بہتر ہو گا۔
٭۔٭۔٭۔٭
میری رہائی تاوان کی ادائیگی کے بعد ہوئی۔ تاوان کس نے دیا یہ پتہ نہیں۔ کوئٹہ سے بازیاب ہونے والے ڈاکٹر سعید کی میڈیا سے گفتگو!
نہ بوئے گل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
بلوچستان میں جب مسیحاﺅں کو تاوان دینا پڑے گا تو عام آدمی کیسے سانس لے گا۔ وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی تو مہینہ میں 25 دن خود بخود ہی صوبہ بدر ہو کر اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں تو پھر اغوا کار تو لازمی سر اٹھائیں گے۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ سے مسیحا آسمان کی طرف ہی دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ محافظ بھی درندوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں لیکن اسکے باوجود وہ کابینہ میں موجود ہیں۔ کراچی میں ”بھتہ“ اور بلوچستان میں ”تاوان“ خیبر پی کے میں ”ڈرون“ عوام بیچارے کہاں جائیں، ان حالات میں وہ مرنے کی دعا ہی کریں گے لیکن .... ع
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کفن دفن اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ غریب آدمی مرنے سے بھی ڈرتا ہے۔ ہنس مُکھ وزیر اعلیٰ بلوچستان عوام کو تحفظ فراہم کریں ورنہ قدرت کی بے آواز لاٹھی کسی وقت بھی قہر لا سکتی ہے۔ میڈیا پر آکر جُگتیں لگانا تو ان کا .... ع
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ورنہ اس عمر میں تو لوگ خمیدہ کمر کیساتھ بمشکل اوں آں کی آواز ہی نکال سکتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭
مسلم لیگ (ن) ایک پوائنٹ اوپر آ گئی۔ بلاول اور میرے بیٹے کی تعلیم برابر ہے : عمران خان
تعلیم برابر ہونے کا مطلب کہیں جانشین تو مقرر نہیں کرنا۔ بلاول چیئرمین ہے تو صاف ظاہر ہے آپکا دل بھی للچا رہا ہو گا لیکن آپ تو موروثی سیاست کو زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک پوائنٹ اوپر آنے سے سونامی کہیں تھم تو نہیں گیا، لیکن اقتدار کا جام (ن) لیگ کے ہونٹوں تک آنے میں ابھی کافی سونامی حائل ہیں۔ تحریک انصاف 7 فیصد بہتر ہوئی ہے تو کیا اتنی بہتری سے انقلاب آ جائے گا۔ الیکشن کے قریب جا کر تو ہر پارٹی پر عالمِ نزع طاری ہو گا، ہر کوئی اپنے اپنے کارنامے عوام کے سامنے گنوائے گا۔ (ق) لیگ ماضی اور حال، (ن) لیگ صوبے کا کمال، پیپلز پارٹی عوام کی کھال اور تحریک انصاف کہے گی ”نوبال نوبال“ دیکھیں تبدیلی کون لائے گا۔ ہر کوئی لاہور کو فتح کرنے کا اعلان کر رہا ہے، نہ جانے زندہ دلانِ لاہور رشتہ¿ ماضی کو برقرار رکھتے ہیں یا نئے چہروں کو ویلکم کرتے ہیں۔ دسمبر میں علامہ طاہر القادری بھی جلاوطنی ختم کر کے آ رہے ہیں۔ ہم تو یوں کہیں گے .... ع
”کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے“
بالآخر علامہ صاحب کا وعدہ بھی وفا ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے گھوڑوں کو الیکشن میں بھگانے کیلئے مالش کر رہا ہے، دیکھیں اقتدار کا ہُما کس کے سر بیٹھتا ہے ۔
٭۔٭۔٭۔٭
نادرہ بیگم کا مقبرہ خستہ حالی کا شاہکار بن گیا۔
شہزادی کا مقبرہ نشئیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ دروازہ بند، تختی غائب اور سنگ سُرخ جنگلے بھی غائب۔ کیسا خوبصورت چہرہ آج صرف کاغذوں میں محفوظ ہے، وہ شہزادی جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی تھی آج اسکے مزار پر ”ہُو کا عالم“ ہے۔ غالب نے کہا تھا
اب اور پریشاں دل ناشاد نہ کرنا
وہ یاد بھی آئیں تو انہیں یاد نہ کرنا
لیکن حکومت اور آثار قدیمہ والے کیوں بھول چکے ہیں۔ مقبرے کی خستہ حالی دیکھ کر حکومتی اداروں کی بے حسی پر افسوس ہوتا ہے، شاہی قلعہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، مینار پاکستان کی لفٹ نہ جانے کب ٹھیک ہو کر چلے گئی، بارہ دری کی دیکھ بھال بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ قدیم یادگاروں میں کوئی ایک چیز بھی صاف ستھری نہیں ورنہ ہم بھی تاج محل کی طرح پیسہ کما سکتے تھے۔ بہرحال بھارت نے اسے ”کماﺅ پُتر“ بنایا اور ہم نے ”نشئیوں کا ڈیرہ“ !