چیئرمین واپڈا سید راغب عباس شاہ نے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق ہو جائے تو اس پر کام ہو سکتا ہے اور فنڈز مل جائیں تو 2020ءتک مزید 19 ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو گذشتہ کچھ برسوں سے توانائی کے شدید اور سنگین بحران کا سامنا ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کو تمام تر کوششوں کے باوجود اس پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں پاکستان میں گذشتہ پانچ سال سے توانائی کے بحران کی وجہ سے ترقی کا پہیہ جامد ہے۔ پاکستان اکنامک سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی کی کھپت میں ماضی کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اگر کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر نہ ہوتا اور سیاستدان عوام کو ماضی میں سبز باغ دکھا کر گمراہ نہ کرتے رہتے تو آج ملک میں یوں اندھیروں کا راج نہ ہوتا اور ہماری معیشت اور صنعت بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہوتی۔ ملک کے ایٹمی سائنسدان اور پلاننگ کمشن کے ممبر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق کالاباغ ڈیم نہ بنانا بدقسمتی ہے۔ واپڈا کے چیئرمین نے بھاشا ڈیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے جبکہ ڈاکٹر ثمرمند مبارک کے مطابق بھاشا ڈیم مشکل ترین اور مہنگا ڈیم ہو گا۔ پاکستان اگر کروز میزائل بنا سکتا ہے، ایٹمی طاقت بن سکتا ہے تو بجلی جیسے مسائل پر قابو پانا کوئی بڑی بات نہیں۔ بدقسمتی ہے کہ اس جانب حکمرانوں نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نہ کسی حکومت نے اپنے دور میں کوئی عملی کام کر کے دکھایا۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لئے اکثر اتفاق رائے کی بات کی جاتی ہے جبکہ واپڈا کے ایک سابق چیئرمین جنرل زاہد علی اکبر کے مطابق 1991ءکے واٹر ارکارڈ میں کالاباغ ڈیم اتفاق رائے سے منظور ہو چکا ہے۔ اب صوبوں کے اتفاق رائے کی نہیں، وفاق کے ایگزیکٹو آرڈر کی ضرورت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اتفاق رائے کے چکر سے نکل کر اصلاح احوال کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ یہ کام جتنی جلدی ہو جائے، ملک کی ترقی، خوشحالی اور عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے بہتر ہو گا۔