رحمان ملک اچھلے بھلے، سنجیدہ اور ادھیڑ عمر آدمی ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو وہ باتیں بھی نہایت گھمبیر، متین، حب الوطنی پر مبنی اور دور کی کوڑی لانے والی کرتے ہیں لیکن یار لوگوں نے رحمان ملک کو ہمیشہ ”نان سیریس“ لیا ہے۔ معلوم نہیں اس میں رحمن ملک کے کالے سیاہ بالوں کا قصور ہے یا ان کی چوڑی اور بڑی پیشانی کا قصور ہے یا خود ان کے ”وزیر داخلہ ہونے میں کوئی مغالطہ لاحق ہے۔ یہ رحمان ملک کی غلطی یا قصور نہیں ہے کہ وہ وزیر داخلہ ہیں۔ اس ملک میں جتننے بھی وزیر داخلہ آئے اور گئے سب اسی قبیل اور نسل کے تھے یا سب نہیں تو آدھے ضرور اسی قسم کے تھے جہاں تک وزیر داخلہ کا تعلق ہے خود اس کیلئے مضبوط اعصاب، طاقتور دماغ، فولادی جسم اور میٹھی ترین زبان کا مالک ہونا شرط اولین ہے، تعلیم کی کوئی قید نہیں ہونی چاہئے۔ ان خصوصیات میں سے چاروں خوبیاں رحمان ملک میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور تعلیم ان کی اضافی خصوصیت ہے۔ مسلم لیگ ن لاکھ بُرا منائے لیکن حق سچ یہی ہے کہ رحمان ملک نے محرم میں جو ہائی الرٹ رکھا اس سے ہزاروں افراد دہشت گردی سے بچ گئے ورنہ یوم عاشورہ پر دہشت گردی کے کئی بڑے منصوبے تھے جس میں پنجاب اور خیبر پی کے ہٹ لسٹ پر تھے۔ اس لئے رحمان ملک کو کریڈٹ بھی جاتا ہے اور ان کی پیٹھ بھی تھپکنی چاہئے لیکن اس سے پہلے ہی طالبان نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی ہے۔ مسلم لیگ ن لاکھ رحمان ملک سے نفرت اور بُغض کا اظہار کرے لیکن یہ ایک خطرناک حقیقت ہے کہ رحمان ملک کو طالبان سے شدید خطرہ ہے اور بیشک یہی رحمان ملک کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے پروپیگنڈے، لطائف اور دھمکی آمیز حملوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں اور پھر خود کسی ایک بیان میں ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف آصف زرداری نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ پارلیمانی سال کے اختتام پر پارلیمنٹ سے خطاب فرمائیں گے کیونکہ جناب صدر چاہتے ہیں کہ 5 سال کی تکمیل پر خطاب کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جائے۔ صدر زرداری خدا کی طرف سے زردار ہونے کے علاوہ خود بھی اللہ کے فضل سے بہت ”زردار“ ہیں اور آجکل تو بہت ”زوردار“ بھی ہیں۔ زرداری کی زندگی میں اتنے ریکارڈ ہیں کہ ہر وقت ان کا ریکارڈ بجتا رہتا ہے اور کئی ریکارڈ ایسے ہیں جو تاحال منظرعام پر نہیں آئے۔ انہوں نے وہ سب کچھ پا لیا جو ایک عام آدمی مر کر بھی نہیں پا سکتا۔ انہوں نے جو خواہش کی وہ پوری ہوئی مگر ابھی تک وہ خواہشوں کی بھنور میں ڈول رہے ہیں۔ صدر مملکت جناب عزت مآب آصف علی زرداری ولد حاکم علی زرداری خواہشوں کی بارشوں میں بھیگے ہوئے ہیں۔ 2007ءسے ان کا ستارہ عروج پر ہے، لوگ کہتے ہیں کہ وہ سیاستدان نہیں لیکن حقائق خود ثابت کر رہے ہیں کہ صدر زرداری عملاً ایک کامیاب اور بڑے سیاستدان ہیں۔ قسمت کی دیوی مہربان ہے اس لئے نئے سال کی پہلی سہ ماہی تک وہ خواہشوں کے جھولے جھولیں گے۔ انہی دلچسپ خبروں میں ایک بُری خبر یہ بھی ہے کہ بھارت سے تجارت میں 4 ماہ کے دوران پاکستان کو 28 کروڑ 99 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ تجارت کرنے والے بھول گئے کہ بھارت کبھی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود بھارت سے پینگیں بڑھانے والے خوش فہمی میں مارے گئے۔ یہ تو طے ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا۔ بھارت سے کوئی بھی معاملہ کر کے دیکھ لیا، نتیجہ خسارہ ہی نکلے گا۔
کتنے شرم کی بات ہے کہ اجمل قصاب پر ممبئی حملوں کا الزام لگایا گیا تھا۔ پاکستان میں سندھ اور بلوچستان میں ہونے والے دھماکے، قتل اور حادثات میں بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور ”را“ ملوث ہے۔ ریلوے دھماکے کے علاوہ علیحدگی پسندی کی تحریکوں اور بغاوت کی یورش برپا کرنے میں بھارت پوری طرح شامل ہے لیکن پاکستان ایک بھارتی دہشت گرد کو پھانسی دینے سے خوفزدہ ہے یعنی پاکستانیوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ان کی کوئی آزادی حمیت غیرت نہیں، وہ ریمنڈ ڈیوس ہو یا سربجیت سنگھ یا کوئی اور، سب کو کھلی چھٹی ہے۔ چنانچہ امریکہ کی طرف سے سب سے پہلے پھانسی کا خیرمقدم کیا گیا اور برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق اجمل قصاب کے بعد کشمیری لیڈر افضل گورو کی پھانسی کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ صرف مسلمان ہی بے حرمتی، تذلیل اور ناانصافی کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ اس ناانصافی کا آغاز اپنے گھر کی دہلیز اور اپنے ہی لوگوں کی غداری سے عمل میں آتا ہے۔ جب پورا پاکستان ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی چڑھانے کیلئے چلا رہا ہے تو مقتولین کے لواحقین نے ڈالروں میں سودا کر لیا اور ریمنڈ ڈیوس کو ڈالروں کے عوض چھوڑ دیا گیا۔ وہ تو عام سے شہری تھے اسامہ بن لادن جیسا طاقتور اور پاپولر لیڈر کس بے رحمی سے مارا گیا اور مسلم امہ منہ میں گھنگھیاں ڈالے اونگھتی رہی۔ میں یاسر عرفات کی موت کی اطلاع کے بعد سے تواتر کے ساتھ یہ سوال اپنے پروگراموں اور کالموں میں اٹھاتی آئی ہوں کہ یاسر عرفات کی اچانک بیماری اور ہسپتال میں موت طبعی نہیں بلکہ یہ سلو پوائزنگ کا نتیجہ ہے جو یاسر عرفات کی بیوی سوہا عرفات کے ہاتھوں انجام دی گئی۔ یاسر عرفات مرے نہیں مارے گئے ہیں۔ اس قتل کا کون ذمہ دار ہے امریکہ یا اسرائیل؟ بالآخر یاسر عرفات کی مون کی تحقیقات کا آغاز چھ سال بعد عمل میں آ ہی گیا۔ دو دن قبل یاسر عرفات کی قبر کشائی کی گئی ہے۔ اگر تحقیقات حقیقت پر مبنی ہوئیں تو زہر سے ہلاکت ثابت ہو جائے گی۔ امریکہ کئی سالوں سے دو مسلم حکمرانوں کو مختلف طریقوں سے موت کے گھاٹ اتارتا آ رہا ہے مثلاً یاسر عرفات اور صدام حسین، کرنل قذافی اور اسامہ بن لادن، ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل شہید، بے نظیر بھٹو کی شہادت اور ترکی کے مقبول صدر ترگت اوزال کو زہر خورانی سے مارا گیا۔ اسی طرح ضیاالحق کی موت یہ تمام اموات مختلف طریقوں سے عمل میں لائی گئی۔ یہ سب لوگ امریکہ کے لئے قابل قبول نہیں تھے۔ کوئی اسلام کا شیدائی تھا کہ کوئی امریکہ کا مخالف تھا اور کوئی نہایت مقبول لیڈر تھا۔ تینوں آمر امریکہ کیلئے ناپسندیہ تھے۔ چنانچہ سب کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ امریکہ جس جنگی جنگون میں مبتلا ہے اس نے آہستہ آہستہ پوری دنیا میں نفرت اور خوف کو عام کر دیا ہے۔ ہمارے جذباتی، حریص، نقال اور اقتدار کے ستائے ہوئے حکمران اور سیاستدانوں کو آنکھیں کھول لینی چاہئیں کہ جو امریکہ کا ماضی میں دوست تھا وہ حال کا دشمن ہے اور حال کا دشمن مستقبل کا دوست اور حال کا دوست مستقبل کا دشمن ہے :
ہنستے ہنستے نکل آتے ہیں اچانک آنسو
صبح نے اوڑھ لیا رات کا پیراہن غم
زندگی تلخ ہوئی اور بہل جانے سے
سایہ حسرت و امید کے ڈھل جانے سے
ہنستے ہنستے نکل آتے ہیں اچانک آنسو
Nov 29, 2012