گو انتخابات کی آمد آمد ہے اور آئندہ سال انتخابات کا سال ہے مگر ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ کم از کم اتنا وقت تو ہے کہ عوام ذہن نشین کر سکیں۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کی کیا کارکردگی رہی۔ انہوں نے کیسے کیسے معرکے سر کئے اور کس کس میدان میں کتنی کامیابیاں حاصل کیں۔ وفاقی حکومت نے سب سے بڑا چھکا اس وقت مارا جب 18فروری 2008ءمیں عام انتخابات میں دوسرا بڑا عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ(ن) وفاقی کابینہ سے باہر نکل کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جماعت بن گئی اور پھر قائدحزب اختلاف کا چنا¶ بھی اسی جماعت سے کیا گیا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے اے این پی کو راضی کرنے کے لئے اور لسانی جماعتوں کو تقویت دیتے ہوئے ملکی بقاءاور خوشحال مستقبل کے برعکس کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو مستقل بنیادوںپر موخر کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس کے بعد ملک بھر میں بجلی کا بحران اپنی بدترین مثال آپ رہا۔ ہر سال موسم گرما میں ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی طویل اور صبرآزما لوڈشیڈنگ کے خلاف دمادم مست قلندر ہوتا رہا۔ پرتشدد مظاہرے عام ہوئے اور واپڈا کے دفاتر کے ساتھ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ صنعتی، تجارتی اور زرعی سرگرمیاں بدترین بحران کی نظر ہوتی رہیں اور صورت بدحال یہ ہو گئی کہ کئی اداروں کی بندش اور متعدد اداروں میں ڈا¶ن سائزنگ کے نتیجہ میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو گئے۔ پڑھے لکھے نوجوانوںپر روزگارکے دروازے مستقل طورپر بند ہو گئے جو اب بھی بند ہیں۔ اس قدر افراتفری رہی کہ ہرطرف آہ و پکار بھی حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک رینگنے کی سعی نہ کر سکی۔ ہر طرف بھوک ننگ اورافلاس سے عوام بلکتی رہی اور تاحال بلک رہی ہے۔ آج بھی ملک میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور اس شرح میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کی اسی حکومت کے دوران عدلیہ کے ہر فیصلے کی بے توقیری کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا گیا اور اس حکومت جس نے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ جمہوریت کے نعرے بلند کئے ہیں اور واحد عوامی حکومت ہے جو اپنے پانچ سال پورے کرنے جا رہی ہے اس نے جمہوریت کی بساط پر بیٹھ کر عدلیہ کی بے توقیری کرتے ہوئے مختلف مواقعوں پر عدالت عظمیٰ تک کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور عدالت پر تنقید تک کی جاتی رہی۔ کئی حکومتی وزراءاور ارکان اسمبلی میڈیا کی آنکھ کے سامنے عدلیہ پر کھلم کھلا تنقید کرتے رہے اور جمہوریت کی آڑ میں ہی جمہوری تقاضوںکو پامال کیا جاتا رہا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ایران کے ساتھ دیرینہ دوستی اور گہرے تعلقات ہونے کے باوجود امریکی دبا¶ پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکی حالانکہ ایران کی طرف سے پاکستان تک گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل کیا جا چکا ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں بجلی کی طرح گیس کا بحران بھی شدت اختیار کر گیا۔ موسم سرما میں بھی موسم گرما کی طرح صنعتیں توانائی بحران کا گیس کی لوڈشیڈنگ اور پریشر میں کمی کی صورت میں سامنا کرتی رہیں۔ جس سے صنعتی اور تجارتی بحران نے مزید طوالت اختیار کی۔ ملکی معیشت کو اس صورت میں ناقابل تلافی نقصانات برداشت کرنے پڑتے رہے اور نتیجتاً ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کا رجحان نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔
اندرون ملک بھی کاروباری طبقہ اور سرمایہ داروں نے سرمایہ کاری کرنے کے رجحان کو ترک کر دیا جس کی وجہ سے ملکی معیشت مسلسل گرتی چلی گئی اور روز بروز کمزور ہوتی رہی جبکہ رہی سہی کسر آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں کے حوالے سے ان مالیاتی اداروں کی شرائط پر عملدرآمد کی صورت میں نکلتی رہی۔ ہرطرف سوگ برپا رہا اور ایسے ایسے بحرانوں نے ہمارے در پر دستک دی کہ آج کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آخر کیا ہو رہا ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ حکومت کی طرف سے اپنے تمام ترحکومتی دور کے اندر کسی قسم کے معاشی و اقتصادی ایجنڈے کو جاری نہ کرنا تھا اور جب کوئی ایجنڈا ڈکلیئر نہ کیا گیا تو صنعتیں تجارت اور زراعت تباہ حالی کا شکار ہوتی رہیں اور اس تباہ حالی نے عوام کو مسکین بنا کر رکھ دیا۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں سابق صدر اور بدترین آمر جنرل(ر) پرویزمشرف جس طرح امریکی مجاہد کا کردار ادا کرتے رہے اور انہوں نے پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں دھکیل کر اس جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا دیا۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت بھی اسی جنگ میں امریکہ کی فرنٹ لائن اتحادی بنی رہی۔ مسلسل ڈرون حملے ہوتے رہے۔ سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ رونما ہوا جس سے پوری قوم شرمسار ہو گئی۔ ایبٹ آباد کے آپریشن نے پوری دنیا میںہماری جگ ہنسائی کروائی۔ جی ایچ کیو پر حملے ہوئے۔ کراچی نیول بیس پر حملے کی صورت میں ہماری بحریہ کی دفاعی صلاحیت میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی اور اسی طرح ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ ہر روز کسی نہ کسی شہر میں خودکش حملوں کا معمول عام رہا جس میں نہتے اور بے گناہ عوام لقمہ اجل بنتے رہے مگر حکومت نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے یا ان پر نظرثانی کرنے کی کوئی خاص زحمت گوارا نہیں کی بلکہ یہ کہا جائے کہ کچھ کیا ہی نہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ پیپلزپارٹی کی اسی حکومت کی ایک اور بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھ دیا جس کی صورت میں ملک بھر کے اندر لسانی بنیادوں پر ایک نئی بحث اور تنازعہ شروع ہو گیا۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا شوشہ اسی حکومت نے چھیڑا اور تاحال اس پر منفی سیاست گری میں مصروف ہے۔ حکومت نے ہر محاذ پر لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے کی کوشش کی کبھی سندھی زبان میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر سندھ کارڈ استعمال کرنا چاہا تو کبھی کسی صوبے میں کچھ کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی یہی حکومت بلوچستان کے حالات بہتر بنانے میں بری طرح ناکام رہی۔ عدالت عظمیٰ کے تمام تر احکامات ہوا میں اڑائے جاتے رہے۔ وزیرداخلہ رحمن ملک بلوچستان اور کراچی کے حالات میں غیرملکی دشمنوں کے ہاتھ ملوث ہونے کا اشارہ دینے کے باوجود کچھ نہ کر سکے۔ پیپلزپارٹی کی اسی حکومت کے دور میں کراچی کے اندر ایک مرتبہ پھر بدترین ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری کا بازار سرگرم ہوا۔ ملک بھر میں دشمن فرقہ واریت پھیلانے کے لئے سازشیں کرتے رہے۔ بلیک واٹر کی گردش ایام کی خبریں عام ہوتی رہیں۔لاہور کی عام شاہراہ پر دو پاکستانیوں کا خون بہانے والا ریمنڈ ڈیوس خصوصی طیارے پر باعزت رخصت ہو گیا اور ہرطرف حکومت نے داخلی و خارجی محاذ پر ایسے ایسے کارنامے اور چھکے مارے کہ اب عام انتخابات میں عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت سے ایک ایسا کارنامہ سر کرنے کی ضرورت ہے جو کسی چھکے سے کم نہ ہو۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی موجودہ دوراقتدار کی کامیابیاں اس قدر طویل ہیں کہ عوام کے آنسو بہنے لگیں تو تھمتے نہیں۔