خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور مسئلہ کشمیر

Nov 29, 2012

سید نصیب اللہ گردیزی

 گذشتہ دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی دعوت پر بھارتی مشرقی پنجاب کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل پنجاب کے دورے پر آئے اور دونوں رہنماﺅں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پنجاب اور مشرقی پنجاب آپس میں بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے تجارت، سیاحت اور کھیلوں پر خصوصی توجہ دینگے جو ایک مثبت پیشرفت ہے۔ اس سے دونوں اطراف کے لوگوں کے میل سے بہتر تعلقات قائم ہونگے اور یہ پاکستان کے مفاد میں بہتر ہے کیونکہ مشرقی پنجاب کے لوگ جو آئے دن ننکانہ صاحب اور پنجا صاحب اور دیگر اپنے مذہبی مقامات پر حاضری دیتے ہیں۔ پاکستان ان کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال اور انتظامات پر خصوصی توجہ دیتا ہے جس کا بھارت اور دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کے وفود برملا اظہار بھی کرتے ہیں اور حکومت پاکستان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے ذہن میں بھارتی حکومت کی طرف سے گولڈن ٹیمپل کی بیحرمتی اور سکھوں کے قتل عام کی یاد آج بھی رچی بسی ہے۔ سکھ اور ان کے رہنما اکثر نجی محفلوں میں بھی اس بات کا تذکرہ کرتے سنے جاتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت قائداعظمؒ نے ان کو پاکستان میں شامل ہونے کی جو دعوت دی تھی ان کی لیڈرشپ نے اس دعوت کو قبول نہ کر کے غلطی کی تھی۔ اگر ہم پاکستان میں شامل ہو جاتے تو ہندو بنئے جو ہمارے ساتھ سلوک کر رہے ہیں اس سے ہم بچ جاتے اور ہماری مذہبی مقامات پر محفوظ رہتے۔ بھارت کی معروف دانشور اروون وتی رائے نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بھارت کے استحکام کیلئے اور بھارت کو یکجا رکھنے کیلئے کشمیریوں کو حق خود ارایت دیا جانا بہت ضروری ہے۔ شیخ عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس جو ہمیشہ سے بھارت نواز رہی ہے اس کے لوگوں نے بھی بھارت سے علیحدگی کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی کشمیر کو متازعہ مسئلہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف مٹھی بھر جمعیت بے سرو سامانی کے عالم میں بھارت سے علیحدگی کی بات کرنا شرو ع کر دی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی کشمیر کو متنازع مسئلہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف مٹھی بھر جمعیت بے سروسامانی کے عالم میں بھارت کی 8 لاکھ فوج سے مقابلہ کر رہی ہے اور انہوں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ بھارت سے آزادی یہ جدوجہد جاری رہے گی اور جس مقصد کیلئے پہلے لوگوں نے قربانیاں دیں اور شہید ہوئے۔ اس کیلئے ہم بھی شہید ہونا چاہتے ہیں۔ بھلا اس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے؟ جو شہادت کا جذبہ لے کر میدان کارزار میں نکلی ہو۔ ہمارے خیال میں یہ بہت اچھی پیشرفت ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کو عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی پیشرفت کرنی چاہئے۔ 2013ءمیں پاکستان اور بھارت میں نئے انتخابات منعقد ہونگے، نئی حکومتیں بنیں گی، نئی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ترتیب دی جائیں گی لیکن بھارت کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ کی طرح کوئی خاص تبدیلی رونما ہونے کے امکانات کم ہیں۔ بھارت سے مسئلہ کشمیر کے موقف اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں کوئی بہتری یا مثبت کردار کی امید رکھنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا اور 2014 میں افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوجوں کی واپسی شروع ہو جائے گی جس کی وجہ سے خطہ کی صورتحال یکسر تبدیل ہونے کا امکان موجود ہے۔ امریکہ نے افغانستان کی جنگ میں بھارت کا کوئی اہم کرددار نہ ہونے کے باوجود اس کو افغانستان کی تعمیر و ترقی، افغانستان کی فوج اور پولیس کی تربیت سونپ کر بے پناہ مالی امداد سے نوازا گیا جبکہ بھارت نے افغانستان میں اپنے قائم کونصل خانوں میں لوگوں کو دہشت گٓردی کی تربیت دے کر پاکستان کے علاقوں بلوچستان، سوات، وزیرستان میں سالہاسال سے تخریب کاری کر رہا ہے۔ افغانستان کی سکیورٹی فورسز پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کی کئی خلاف ورزی کر چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ہماری بہادر افواج چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے وطن عزیز کی حفاظت کرنے میں مصروف عمل ہے اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتی چلی جا رہی ہے۔ پوری قوم کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے امریکہ، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پاکستان کے دشمن بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مٹھی بھر علیحدگی پسندوں پر اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان کے مسئلے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے جو کارروائی کی وہ قابل تعریف ہے۔ اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے وقت مسائل پر چھ نکات پیش کئے جو کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد کے خلاف نہ تھے۔ بلوچستان اور وفاقی حکومت کا اس نازک مسئلہ کے حل پر مثبت توجہ نہ دینا پاکستان کی وحدت کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اختر مینگل اور بلوچ رہنماﺅں کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کی مثبت ملاقاتوں اور ہمدردی سے تلخی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد سیکرٹری جنرل محمد اسلم زار اور دیگر ساتھیوں کی کاوش سے بلوچستان کے قومی مسئلے پر ایک آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی گئی جس میں میاں محمد نواز شریف، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، مشاہد حسین سید، رضا ربانی، اے این پی اور ایم کیو ایم، دیگر قومی رہنماﺅں اور بلوچستان کے رہنما شریک ہوئے اور پھر اس کے بعد ایک کانفرنس کوئٹہ میں منعقد کی گئی جس میں بلوچستان کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے شرکت کی اور بلوچ رہنماﺅں کو اپنا مقدمہ پوری طرح پیش کرنے کا موقع ملا اور سپریم کورٹ بار اور قومی رہنماﺅں نے ان کے موقف پر اکثر نکات کو درست مانتے ہوئے ان کے حق میں قراردادیں منظور کیں اور حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان پر فوری عمل درآمد کرے تاکہ ان کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ ........ (ختم شد)

مزیدخبریں