26 نومبر 2013 کی خوشگوار صبح تھی جب میں زندگی میں پہلی بار سینے پر شعبہ ء ِصحافت کا کارڈ سجائے میدانِ صحافت کے جرنیلوں کے ہمراہ ایک ہی کوسٹر میں سوار وطن عزیز کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک الوداعی تقریب میں شرکت کیلئے جا رہا تھا۔ یہ تقریب شہداء کو خراج عقیدت اور انکے لواحقین کو ڈیفنس فیز۔ 9 میں انکی خاطر بنائے گئے نئے گھروں کی چابیاں پیش کرنے کیلئے منعقد کی گئی تھی۔ راستے‘ پروسیجرز‘ سکیورٹی چیکس کے طریقے اور وہاں پر موجود لوگ‘ سب کچھ جانا پہچانا سا تھا مگر اس بار تقریب کا مقصد بالکل اچھوتا اور میرے فوجی زندگی کے ویلفیئر کے تجربات سے کہیں ارفع و اعلیٰ تھا۔ فوج نے ہمیشہ سے اپنے شہیدوں اور انکے لواحقین کا بہت خیال رکھا ہے مگر جس طرح آج انہیں مادرِ وطن میں پناہ ملنے جا رہی تھی ۔’’وہ معاملہ کوئی اور ہے‘‘ قرآن مجید شہیدوں کو زندہ کہتا ہے تو پھرایک اسلامی ریاست میں انکے بچے کس طرح یتیم اور بوڑھے ماں باپ کیونکر بے سہارا ہو سکتے ہیں؟
خونِ شہداکی عظمت کے اعتراف میں دیئے گئے آج کے نذرانے کے بروشرز پڑھ کر انہی سوچوں میں گم تھا کہ جنرل کیانی صاحب تشریف لے آئے ان کے مطمئن چہرے کو دیکھ کر سوچوں نے ماضی کے ڈھیر سارے ورق الٹا دیے۔ 1976ئمیں ہم اکٹھے انفنٹری سکول کوئٹہ میںTACTICS کے استاد تھے اور آئندہ آرمی چیف کیلئے جن جرنیلوں کا پینل سامنے آیا وہ اپنے کیرئیر کا پہلا کورس کرنے کیلئے ہمارے پاس آئے تھے۔ سمارٹ‘ خوش اخلاق مگر قدرے ریزرو کیپٹن کیانی اس وقت بھی اپنے کام سے کام رکھنے کو ہماری خوش گیپیوں کی محفل کا نعم البدل قرار دیتا تھا۔ یاد آ رہا تھا کہ ایک دن ایکسر سائز کے دوران بھی میں نے انہیںکچھ سائنس نیوز لیٹرز پڑھنے میں محو دیکھا جن میں ڈرون ٹیکنالوجی پر کافی مواد تھا۔ نوجوان کپتان نے پڑھا اور عشروں کے سفر طے کر نے کے بعد اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے‘ اسی ٹیکنیک پر تیار کردہ پاکستانی ساخت کے براق و شہپر ڈرون طیارے اپنے عسکری بیڑے میں شامل کرنے کا اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہوا۔ کیانی صاحب اُس وقت بھی صابر اور ٹھنڈے مزاج سے فیصلے کرتے تھے۔ وہ ہر انسان کا حق اور اپنے اوپر قوم کیلئے فرائض کا خوب ادراک رکھتے تھے اور اسی لئے اپنے آخری اعلیٰ ترین عہدے کے دوران لاتعداد طعنے سہنے کے بعد بھی وہ یکسوئی سے جمہوریت کی آبیاری کرتے رہے ۔اپنی فوج کو سیاست سے دور رکھ کر نہ صرف مختلف قسم کے اپریشنز میں سرخرو ہوتے رہے۔ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ غیر معمولی دبائو کے اندر پاکستان آرمی کی ہمت‘ مورال اور عسکری صلاحیت کو ہر دم بہتر بنانے میں کامیاب رہے۔ بلوچستان انکی توجہ کا خاص مرکز رہا جہاں پر اس طرح کے تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کئے کہ وہاں کا نوجوان نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی دھارے میں اپنی صلاحیت منوانے کے قابل ہو سکے ۔ بھرتی کی شرائط نرم کر کے وہاں کے ہزاروں نوجوانوں کو فوج میں شمولیت کی ترغیب دی اور آج فوج سے نامانوس لوگ اسی وردی میں قوم کیلئے شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔ بلوچستان ‘ فاٹا ودیگر پسماندہ علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر‘آفات و دیگر معاملات میں فوج کی غیر عسکری خدمات ان کے دور میں عیاں رہیں۔آج شہدا کے جن لواحقین کو گھر ملنے والے تھے وہ بلوچستان‘ سندھ‘ فاٹا‘ خیبر پختونخواہ‘ آزاد کشمیر اور پنجاب کے دوردراز علاقوں سے آ کر قومی یکجہتی کا ایک گلدستہ پیش کر رہے تھے جس کا سہرا بھی اسی سالار کے سر ہے۔ جنرل کیانی نے پاکستان آرمی کیلئے جو سٹینڈرڈ قائم کئے ہیں امید واثق ہے کہ نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی انہیں قائم رکھیں گے کیونکر وہ شہادت کی خوشبو سے بخوبی واقف ہیں۔
تقریب کا آغاز قرآن پاک کے انہی الفاظ سے ہوا’’وَلاَ تقوُلوُ لِمنَ یُقَتَل ُ فیِ سبیل اللہِ اموات ًبَل احیاًُ ء ولَکن لاَ تَشعُروُن‘‘۔ اسکے بعدآرمی کے ڈائر یکٹر ہاوسنگ نے اس پراجیکٹ کے نمایاں خدوخال سے متعارف کروایا جو انتہائی ہمت افزا تھے۔اس سکیم کا نام جے سی اوز سولجر ہاوسنگ انشورنس سکیم (JSHIS ) ہے۔ اس سے پاکستان آرمی کے سپاہی سے لیکر صوبیدار تک‘ بشمول بغیر وردی ملازمین کے‘ اپریشن میں شہید یا دوران سروس کسی حادثے یا موت کا شکار ہونے والوں کے پسماندگان کو اپارٹمنٹ مفت دیئے جائینگے۔ یہ سکیم یکم اکتوبر 2011 سے شروع کی گئی اور پچھلے 13 ماہ میں 1607 جوان جان بحق ہو چکے ہیں آئندہ کیلئے اس میں فوج کے شانہ بشانہ کام کرنے والے مجاہد فورس کے جوانوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ سکیم تین حصوں میں لاہور‘اسلام آباد اور کراچی میں مکمل ہو گی۔پہلی فیز میں DHA لاہور میں 3000 فلیٹ بنائے جا رہے ہیں جن میں سے 800 مکمل کر کے انکی تقسیم کیلئے یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔ 400 فلیٹ زیرِ تعمیر ہیں جبکہ 1600 فلیٹ 2015 تک مکمل کر لئے جائینگے۔ اسکے بعد کراچی اور اسلام آباد میں تعمیر شروع کی جائیگی۔ ایک فلیٹ کی تعمیر پر2660,000 روپے خرچ آتے ہیں جبکہ زمین کی قیمت 35 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔
شہداء کے لواحقین کیلئے یہ Guaranteed Benefit دیگر مراعات کے علاوہ ہے جو حکومت مروّجہ قوانین کے تحت دے رہی ہے۔ اس سکیم پر حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں آتا لہذا یہ اپنی مدد آپ کا انشورنس کے ذریعے ایک بہترین ویلفئیر منصوبہ ہے۔ سولجر ہر ماہ صرف تین سو روپیہ اپنی تنخواہ سے کٹواتے ہیں جو بذریعہ رجمنٹ سنٹر ہاوسنگ ڈائریکٹریٹ کے فنڈ میں جمع ہو جاتے ہیں اور پھر اس سے جنت میں گھر حا صل کرنے والوں کے بچوں کو زمین پر گھر مل جاتے ہیں۔مضبوط فریم سٹرکچر پر بنائے گئے 2/3 کمروں والے 1212 فٹ ایریا کے فلیٹس جو اٹیچ باتھ رومز‘ ٹائلڈ فلور سے مزیّن ہیں ہر طرح کی سہولیات کے ساتھ ایک خوبصورت ماڈرن سوسائٹی بناتے ہیں۔ یہ پاکستان آرمی ہی نہیں پوری قوم کی طرف سے قومی حرّیت اور اس پر قربان ہونے والوں کیلئے محبت کا اعتراف ہے۔
کیا ہم اس اعتراف کے سائبان کو پورے پاکستان کی سر زمین پر دہشت گردی کی زد میں آنے والے معصوموں ‘فرائض منصبی نبھاتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں اور ہر دم خطرے میں رہنے والے پولیس یا سکیورٹی اہلکاروں تک نہیں پھیلا سکتے؟۔ یقینا اگر انہی خطوط پر صوبائی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کی مدت اور مستقبل کے نقصانات کا فی الحال کوئی تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔ لہذا جتنی جلدی ہو سکے اس کام کا آغاز کردینا چاہیے۔ آج مجھے بار بار سورۃ ’’ والضحیٰ‘‘ یاد آرہی ہے جس میں اللہ اپنی کرم فرمائی کا ذکر کرتے ہوئے رحمت اللعالمین سے کہتا ہے کہ ’’ نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا اور نہ تجھ سے تنگ پڑا‘‘ اور پھرصرف تین باتیں چاہتا ہے (ا) وَامَّالیتیمَ فلاَتقھر (ب) وَاّماَالسّاِئل َ فلاَتَنَھر (ج) وَاّما بِنعمتِ ربِِّکَ فحَدِّث‘‘ یعنی یتیموں کو حقیر نہ جانوں ‘ سائل یا ضرورتمند کو نہ جھڑکو اور اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کیا کرو۔
یا رب العزت! ہم نے یتیموں کو جھڑکا نہیں بلکہ مادرِ وطن نے گود لے لیا ہے‘ ہمیں مزید طاقت عطا فرما۔ ہم نے شہیدوں کے بوڑھے والدین کو سائل بننے سے پہلے ہی سنبھال لیا ہے‘ ہمارے عزائم کو دوام عطا فرما۔اور ہم نے آج کی تقریب جو کہ تیری نعمت کا اعلان تھی اس کا کھل کر تذکرہ کیا ہے‘ ہمیں اور وسعت قلب و نظر عطا فرما۔ یا الرحمٰن الرحیم۔ نہ تو ہمیں کبھی چھوڑنا اور نہ ناراض ہونا‘ ہمیں ہدایت اور حوصلہ عطا فرما کہ تیری آزمائشوں پر پورا اتریں۔ ہم قومی یک جہتی سے شہیدوں کے بچوں کو یتیمی کا احساس ہونے دیں نہ کسی بوڑھے والدین کا سہارا ٹوٹنے دیں۔ آمین۔