نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کی آئندہ نسل کو اپاہج اور معذور بنانا چاہتے ہیں پہلے قبائلی علاقوں جن میں وزیرستان اور پشاور جیسا جدید شہر بھی شامل ہے۔ پولیو مہم کی ٹیموں پر قاتلانہ حملے ہوتے رہے ہیں جن میں بہت سے ڈاکٹر اور نرسیں جاں بحق ہو چکی ہیں اب بلوچستان میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں پولیو کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک وقت تھا… آج سے تقریباً پندرہ برس قبل جب پاکستان کو عالمی اداروں نے پولیو فری ملک قرار دے دیا تھا لیکن کچھ ملک دشمن عناصر نے غیر ملکی قوتوں سے پیسہ لے کر پاکستان میں پولیو جیسے خوفناک مرض کو پھیلانے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ ملک دشمن ہیں بلکہ مصوم بچوں کو معذور اور اپاہج بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قبائلی علاقوں کے لوگوں میں یہ ’’ڈس انفرمیشن‘‘ پھیلا رہے ہیں کہ پولیو کے قطرے ہمارے بچوں کو بانجھ بنانے کی سازش ہے۔ انکی اس غلط بیانی پر قبائل کے ان پڑھ لوگ یقین بھی کر لیتے ہیں اور خود ہی بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے ٹیم کو منع کر رہے ہیں۔ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں اور اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانا چاہتے ہیں اور پولیو کے قطرے پلانا چاہتے ہیں انہیں یہ لوگ جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے کر اور پولیو ٹیم کے لوگوں کو قتل کر کے خاموش کروا دیتے ہیں۔بلوچستان گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے دہشت گردوں کی آما جگاہ بنا ہوا ہے اور اب جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پولیو کیخلاف نئے سرے سے نئے عزم اور جذبے کے ساتھ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور مہم دوبارہ شروع کر دی گئی تو بلوچستان میں پولیو ٹیم کے لوگوں کے قتل و غارت کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ وفاق کو بلوچستان میں حکومتی رٹ قائم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں دوسرا یہ کہ بلوچستان میں پولیو کیخلاف مہم کیلئے فوجی ڈاکٹرز اور نرسوں پر مشتمل ٹیم بنانی چاہئیے جو فوج کی نگرانی میں وہاں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں۔ زیادہ حساس اور خطرناک علاقوں میں پولیو مہم فوجی ڈاکٹروں کے زیر نگرانی ہی چلنی چاہئیے۔ جو والدین بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کریں انہیں سیدھا جیل میں ڈالا جائے اور اگر پولیو مہم میں وہاں کے قبائل یا ان کے سردار وغیرہ حائل ہوں تو انہیں بھی متنبہ کر دینا چاہئیے۔ جب تک حکومت پوری شدت اور سختی سے ان پر ہاتھ نہیں ڈالے گی یہ لوگ ہر طرح سے ملک کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ بلوچستان ہو یا خیبر پی کے سندھ ہو یا پنجاب… دہشت گردی ختم کئے بغیر اس ملک میں کوئی بھی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا بلکہ کوئی ترقیاتی یا عوامی فلاح کا منصوبہ شروع ہی نہیں ہو سکتا۔پاکستان میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والوں میں بھارت سرفہرست ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر پردہ ڈالنے کیلئے بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ اب پاکستان جب بھی مقبوضہ کشمیر کی بات کرتا ہے تو بھارت ساتھ ہی ہمیں بلوچستان کا طعنہ دینا شروع کر دیتا ہے۔ دہشتگردوں کے اس نیٹ ورک کو ختم کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں اس کیلئے فوج کی معیت میں رینجرز اور ایف سی کو آگے لانا ہو گا حکومت کو فوری طور پر فوجی قیادت کے ساتھ مشورہ کر کے بلوچستا ن میں آپریشن کا حکم صادر کر ے تاکہ فتنہ انگیز اور شر پسند عناصر کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا جائے… ورنہ پولیو میں روز افزوں اضافے کے باعث پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہو کر رہ جائے گا او مستقبل قریب میں پاکستانی عوام کے غیر ملکی دوروں پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ اس سے پاکستان پوری دنیا میں تنہا ہو کر رہ جائیگا۔ ہمیں ملک کو اس قسم کی بدنامی اور تنہائی سے بچانا ہو گا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف باقی ہر طرف سے بے فکر ہو جائیں ان کی حکومت کو کوئی دھرنا، کوئی جلسہ، کوئی بہتان خان نہیں گرا سکتا… اس وقت حکومت کی توجہ تین اہم مسائل کی طرف مرکوز رہنی چاہئیے۔ نمبر ایک تھر میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ تھرپارکر کا فوری طور پر دورہ کریں اور سندھ حکومت کی غفلت کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے تھر کے بھوکے پیاسے لوگوں اور معصوم بچوں کی فوری امداد اور علاج معالجے کا حکم دیں۔ نمبر دو آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے نتیجے میں بے گھر ہو کر آنیوالے مہاجرین (آئی ڈی پیز) کی ضروریات زندگی کا اہتمام کرنے کیلئے حکومتی پیکیج کا اعلان کریں اور وزیرستان کے جن علاقوں میں امن و امان قائم ہو چکا ہے وہاں کے لوگوں کی باعزت واپسی کا انتظام کریں۔ اب موسم سرما کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان مہاجرین میں (جن کی تعداد پندرہ لاکھ کے قریب ہے) عورتیں، بجے اور بوڑھے لوگ میں شامل ہیں۔ انہیں سردی سے محفوظ رہنے کیلئے گرم کپڑوں، بستروں کمبلوں اور دیگر اشیائے خورد و نوش اور ادویات وغیرہ کا مکمل انتظام، حکومت وقت کا فرض ہے۔اور نمبر 3 یہی جس کا ذکر میں نے سب سے پہلے کیا ہے کہ پولیو کے خلاف مہم کو کامیاب بنانے کے لئے جہاں جہاں ضرورت پڑے آپریشن کیا جائے تاکہ آئندہ نسل کو معذور اور اپاہج ہونے سے بچایا جا سکے۔